امریکی صدر جو بائیڈن اگلے ماہ مشرق وسطیٰ کا دورہ کر رہے ہیں۔وہ اسرائیل اور مغربی کنارے کے علاوہ سعودی عرب بھی جا رہے ہیں، جہاں وہ سعودی حکام کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اور علاقائی معیشت اور سیکیورٹی کے امور پر بات چیت کے علاوہ خلیجی تعاون کے اجلاس میں بھی شریک ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اورعلاقائی صورت حال کے تناظر میں یہ دورہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔
قاہرہ سے وائس آف امریکہ کے نامہ نگارایڈورڈ یرئنین نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے، کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے منگل کو مصر اور بدھ کے روز ترکی اوراردن کے لیڈروں سے بات چیت کی ہے۔
قاہرہ میں، انہوں نے اعلیٰ مصری رہنماؤں سے ملاقات کی اورسات اعشاریہ سات ارب ڈالرز کے 14 الگ الگ تجارتی معاہدوں میں پر دستخط کیے۔ سعودی عرب اردن میں بھی سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے۔ اس دورے سے سعودی عرب کی پوزیشن کو مزید تقویت ملی۔
’ایم بی ایس‘ سے اس طرح کےعلاقائی دورے کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن اس وقت کے انتخاب کا تعلق ان کے 86 سالہ والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی بگڑتی ہوئی صحت سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔
مصر، اردن اور ترکی کے دورے اہم علاقائی ریاستوں کے ساتھ سعودی عرب کے تجارتی اور سیاسی تعلقات کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات، یمن کی صورت حال اور علاقائی دفاعی امور بات چیت کا حصہ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ عراق کا دورہ ملک میں سیاسی غیر یقینی صورت حال اور نئی حکومت کی تشکیل میں ناکامی کی وجہ سے ملتوی کیا گیا ہے۔
مصری سیاسی مبصر سید صادق نے وائس ف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی ولی عہد کے دورے پر کچھ عرصے سے کام ہو رہا تھا، اور یہ بائیڈن کے خطے کے دورے سے چند ہفتے قبل اورایران کی جوہری صلاحیتوں پر بڑھتی ہوئی تشویش کے حوالے سے اور بھی زیادہ اہمیت اختیا کر گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد ایران کے گرد گھیرا ڈالنے اور اس پر دباؤ بڑھانےکے لیے ایک فضائی حفاظتی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایرانیوں کو یہ دکھانے کے لیے کہ ہمارے پاس یہ فوجی آپشن ہے،اور اس میں چھ خلیجی ریاستیں، اردن، مصر اور اسرائیل شامل ہوں گے۔ بائیڈن کے دورے کی وجہ سے، علاقائی رہنما یہ دیکھنے کے لیے کئی دورے کر رہے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ بائیڈن کے علاقے میں آنے سے قبل ایک متفقہ موقف اختیار کرنے کے لیے سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔
صادق نے مزید کہا کہ توقع ہے کہ ریاض، اسرائیل کے ساتھ نجی طور پر تعلقات مضبوط کرے گا اور فضائی دفاعی معاہدے کی حکمت عملی بھی اسی کا ایک حصہ ہو سکتاہے ہر چند کہ دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کا امکان ابھی نظر نہیں آرہا ہے۔
مصری تجزیہ کار سید صادق کا یہ خیال ہے کہ خلیجی ریاستیں ممکنہ طور پر بائیڈن کے آنے والے دورے میں امریکہ کو ایندھن کی فروخت میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
خطّار ابو دیاب، جو پیرس یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس پڑھاتے ہیں، انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ محمد بن سلمان کا علاقائی دورہ بادشاہ بننے کی راہ میں ایک اور سنگ میل ہے اور یہ کہ وہ خود کو ایک اعلیٰ رہنما کے طور پر ثابت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عرب ریاستوں کے لیے اہم ہے کہ وہ ایرانی صورت حال، فلسطین جیسے اس وقت کے اہم مسائل کے بارے میں امریکہ کے سامنے ایک مشترکہ موقف رکھیں، جب کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے عرب ممالک اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں پہلے سے موجود مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
خطّار ابو دیاب کے مطابق صدر ایردوان کے حالیہ دورہ ریاض کے کچھ ہی دن بعدسعودی ولی عہد ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ "انقرہ نے سعودی مخالف جمال خشوگی کے قتل کے معاملے کو دفن کر دیا ہے اوراب وہ سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔"