(ویب ڈیسک) افغان وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ طالبان انتظامیہ نے کوئلے کی قیمت میں دو گناسے بھی زیادہ اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ افغان انتظامیہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بدھ کے روز طالبان کی وزارت خزانہ نے کہا کہ طالبان انتظامیہ نے کوئلے کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ بین الاقوامی امداد ختم ہو جانے کے بعدافغانستان کوئلے کی برآمدات پر محصولات بڑھا کر اپنے بجٹ خسارے کو کم کر سکے۔
معاشی مشکلات کے شکار افغانستان کے لیے پاکستان کو برآمد کئے جانے والے کوئلے پر عائد کی گئی کسٹمز ڈیوٹی ، آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ گزشتہ اگست افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بینکنگ سیکٹر پر پابندیوں اور ترقیاتی امداد میں کمی نے افغانستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
SEE ALSO:
عراق: کوئلہ بنانے کے 200 برس پرانے طریقے کی مقبولیت میں کمی کیوں؟وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل کے مطابق، طالبان انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے کوئلے کی قیمت 90 ڈالر فی ٹن سے بڑھا کر 200 ڈالر فی ٹن کر دی تھی۔جبکہ پاکستان کو ہر روز تقریباً 12سے 14ہزار ٹن کوئلہ برآمد کیا جاتا ہے۔
طالبان حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان کا غیر ملکی امداد پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں۔
ترجمان وزارت خزانہ احمد ولی حقمل کے مطابق مئی میں کسٹم ڈیوٹی میں 30 فیصد اضافے کے بعد افغان حکام کو 60 ڈالر فی ٹن وصول ہوں گے اور یہ رقم افغانستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرے گی۔ افغانستان کو موجودہ سال کے بجٹ میں 50 کروڑ ڈالر سے زائد کے مالی خسارے کا سامنا ہے جومقامی کرنسی میں تقریبا 44 ارب افغانی بنتا ہے۔
طالبان انتظامیہ کی جانب سے کوئلے کی قیمت میں اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے پاکستان کےوزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان افغانستان سےکوئلے کی درآمد مقامی کرنسی میں کرے گا، تاکہ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کوبچایا جا سکے۔
تاہم احمد ولی حقمل کے مطابق کوئلے کی قیمت میں اضافے کا حالیہ اعلان محض ایک اتفاق ہے، کیوں کہ کسی بھی ملک کی طرف سے تحقیق اورغور و حوض کے بغیر اچانک قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ انتہائی غیر ذمہ دار عمل ہوگا۔
ایک پاکستانی عہدیدار کے مطابق پاکستان کوچند ہفتوں قبل ہی اس بات کا اشارہ مل چکا تھا کہ افغانستان کوئلے کی قیمتوں میں اضافے پر غور کر رہا تھا۔پاکستان زیادہ تر کوئلہ جنوبی افریقہ سے درآمد کرتا تھا تاہم حالیہ ہفتوں میں یورپ کی جانب سے جنوبی افریقہ کے کوئلے کے لیےطلب میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے وہاں بھی کوئلے کی قیمت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
افغان وزارت خزانہ کے ترجمان نےافغان کوئلے کی قیمت میں اضافے کے فیصلے پر اپنا در عمل دینے سے انکار کیا تاہم اس سے قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ کوئلے کی تمام خرید و فروخت پرائیویٹ تاجروں کے درمیان ہو رہی ہے، اس لیے کوئلے کی برآمد پر عائد کی گئی کسٹم ڈیوٹی کو افغانستان کی مقامی کرنسی میں ادا کیا جا ئے گا۔
احمد ولی حقمل کا مزید کہنا تھا کہ تکنیکی ماہرین کی ایک ٹیم نےکئی ہفتوں تک علاقائی مارکیٹ، افغانستان کی صورت حال اور یوکرین جنگ کے باعث دنیا بھر میں کوئلے کی بڑھتی قیمتوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی افغان کوئلے کی قیمت میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان موجود سرحد کے آر پار روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں ٹرک گزرتے ہیں ،جن کی آمدورفت میں بڑھانےکے لیے دونوں ملکوں کے حکام کی جانب سے کوششیں کی جاری ہیں۔تاکہ نہ صرف زیادہ ٹرکوں کی آمدو رفت کو ممکن بنایا جا سکے، بلکہ اوقات کار کو موجودہ 12 گھنٹے سے بڑھا کر 16 گھنٹے کیا جا سکے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جون کے اختتامی ہفتے میں افغانستان سے درآمد شدہ کوئلے کی نقل و حمل کا نظام بہتر بنانے کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہمسایہ ملک سے کوئلہ ڈالرز کی بجائے روپوں میں درآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔
اجلاس میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر صرف ساہیوال اور حب پاور پلانٹس کے لیے درکار کوئلے کی افغانستان سے درآمد پر امپورٹ بل میں سالانہ 2.2 ارب ڈالر سے زیادہ کی بچت ہوگی۔
(اس خبر کا مواد نیوز ایجنسی رائٹرز سے لیا گیا)