پاکستان نے توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لئے ہمسایہ ملک سے کوئلہ کی ترسیل کے جلد از جلد آغاز کے لئے تمام مراحل طے کئے جائیں۔
پاکستان کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے لئے افغانستان سے کوئلہ کی درآمد بہت مددگار ثابت ہو گی ۔ حکومت دیگر کئی ممالک کے ساتھ بھی اس طرز پر اسٹریٹجک شراکت داری کے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں توانائی کا بحران ہے جس کے حل کے لئے اسٹیٹیجک پارٹنرشپ بہت ضروری ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کو کوئلہ، ایل این جی، پٹرول ہر قسم کی توانائی کی ضرورت ہے اور ایسی قیمت پر چاہئے کہ اس کا بوجھ عوام پر زیادہ نہ پڑھے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سوموار کو افغانستان سے درآمد شدہ کوئلے کی نقل و حمل کا نظام بہتر بنانے کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہمسایہ ملک سے کوئلہ ڈالرز کی بجائے روپوں میں درآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔
اجلاس کے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر صرف ساہیوال اور حب پاور پلانٹس کے لیے درکار کوئلے کی افغانستان سے درآمد پر امپورٹ بل میں سالانہ 2.2 ارب ڈالر سے زیادہ کی بچت ہوگی۔
مریم اورنگزیب نے بتایا کہ افغانستان سے کوئلہ کی درآمد کی تفصیلات طے کرنے کے لیے ماہرین کی ٹیم کام کررہی ہے تا کہ اس منصوبے کو زیادہ سے زیادہ موزوں بنایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے چار سالہ دور میں توانائی کی ضرورت کا نہ ادراک کیا گیا اور نہ ہی اس کے حصول کے لئے کوشش کی گئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان توانائی درآمد کرنے والا ملک ہے اور خطے کے ممالک سے اس کے حصول کی کوششیں مفید ثابت ہوں گی۔
ماہر توانائی عمران الحق کہتے ہیں کہ افغانستان سے کوئلہ کے حصول میں لاجسٹکس کا مسئلہ لاحق ہوگا کیونکہ اس کی ترسیل کے ریلوے لائن یا بحری جہاز کا زریعہ نہیں ہے اور صرف ٹرکوں پر انحصار کرنا ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کچھ ہزار ٹن کوئلہ کی ترسیل کے لئے بھی ہزاروں ٹرکوں کی نقل و حرکت ہوگی جو کہ سڑکوں پر اضافی بوجھ کے علاؤہ مہنگا زریعہ بھی ہوگا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ کوئلہ بجلی بنانے والے پلانٹس کے لئے موافق ہے تو اس سے پاکستان کو سستی بجلی بھی ملے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی بوجھ کم ہوگا۔
ماہر توانائی ارشد عباسی کہتے ہیں کہ افغانستان کا کوئلہ انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ سے بہتر ہے اور اپنی اچھی خاصیت کے سبب یہ پاکستان میں لگے ہوئے بجلی کے پلانٹس کے لئے کارآمد رہے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چند ماہ پہلے جب پاکستان اضافی بجلی پیدا کررہا تھا تو اس وقت یہ تجویز زیر غور تھی کہ پاکستان افغانستان کو بجلی کی فراہمی کے بدلے کوئلہ حاصل کرے۔
انہوں نے کہا کہ اس کوئلہ کی بدولت پہلے سے لگے ہوئے ساہیوال اور حب پاور پلانٹس کے علاوہ مستقبل میں افغانستان کے سرحدی علاقوں میں توانائی کے پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں۔
عرفان الحق کہتے ہیں کہ افغانستان سے کوئلہ کی ترسیل آسان اور فوری عمل نہیں ہوگا بلکہ اس کے آغاز میں کم از کم چھ ماہ تک لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان کو اس کی ادائیگی مقامی کرنسی میں کرنا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر کم بوجھ پڑے گا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے کوئلہ کے حصول کی بجائے اگر تھر کے کوئلہ کا استعمال کیا جائے تو یہ زیادہ فائدہ مند رہے گا کیونکہ اس میں نہ تو قیمت کا معاملہ حائل ہوگا نہ ہی ادائیگیوں کی دقت ہوگی۔
خیال رہے کہ روس یوکرین جنگ کے سبب دنیا بھر میں توانائی کی دستیابی میں قلت پیدا ہوئی ہے جس کےباعث توانائی کی قیمتوں میں خاصی حد تک اضافہ واقعہ ہوا ہے۔