ویب ڈیسک۔افغانستان میں حکمران طالبان اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ تاشقند میں منگل سے کابل کی صورتحال پر شروع ہونے والی کانفرنس افغانستان اور علاقائی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہو گی۔
طالبان کے راہنما سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ افغانستان وسطی ایشیا کے ممالک بالخصوص ازبکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے اور طور خم سے ازبکستان تک ریل منصوبوں کی تکمیل کا خواہشمند ہے۔
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایسے وقت میں یہ بیان دیا ہے جب تاشقند أفغانستان میں امن اور خطے کی اقتصادی صورتحال پر منگل سے دور روزہ بین الاقوام کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں امریکہ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے بیس ممالک شرکت کر رہے ہیں۔
سہیل شاہین کا کہنا تھاکہ" ہم چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لیں اور اپنے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کریں۔ جن میں ازبکستان سے طورخم تک ٹرین پروجیکٹ جیسے میگا پروجیکٹس بھی شامل ہیں۔ ہم ان کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ہم پڑوسی ہیں اور ہم ان کے ساتھ امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں"۔
دوسری جانب طلوع نیوز کے مطابق افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی نے کانفرنس سے قبل تاشقند میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ہم عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے لیے تیار ہیں۔ ان کے بقول اسلامی امارات کا افغانستان پر کنٹرول ہے ہم دنیا سے کہتے ہیں کہ وہ ہم سے سیاسی اور معاشی طور پر روابط برقرار رکھیں۔
تاشقند کانفرنس کے مقاصد اور شرکاٴ
ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں منگل کے روز سے افغانستان کے بارے میں ایک کانفرنس کا اغاز ہو رہا ہے جس میں مشکلات سے دوچار ملک کی صورتحال، سلامتی، امن اور خطے کی اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
ازبکستان کی میزبانی میں ہونے والی یہ دو روزہ کانفرنس پہلے پیر کوہونا طے پائی تھی جس میں امریکہ ،پاکستان اور بھارت سمیت 20 ملکوں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
تاشقند میں یہ کانفرنس افغانستان پر طالبان کے دوبارہ کنٹرول کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر منعقد کی جا رہی ہے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی افغانستان سے ایک وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے سہنوا کے مطابق طالبان کی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیا احمد نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے متقی کانفرنس کے شرکاء کو افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ دیں گے۔
ازبکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ کانفرنس افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امن کو یقینی بنانے کے لیے گزشتہ چار برسوں میں منعقد ہونے والی دو تیسری کانفرنس ہے۔
گزشتہ ہفتے ازبکستان کے قائم مقام وزیر خارجہ ولادیمیرناف نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس کانفرنس کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اوراس میں افغانستان کے علاوہ دیگر علاقائی مسائل بھی زیر بحث آئیں گے۔
SEE ALSO: حکومت اور علماء پربغیر ثبوت الزام قابل سزا ہو گا، طالبان رہنما کا فرمانمسٹرناراف نے کہا کہ اس کانفرنس میں طالبان کے وفد کی شرکت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
وائس اف امریکہ کی افغان سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں ازبکستان کے سفیر جاولان وہابوف نے کہا کہ تاشقند کانفرنس میں طالبان کے وفد کے علاوہ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ بھی شرکت کر رہے ہیں۔
مسٹر وہابوف کا کہنا ہے کہ تاشقند اجلاس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی اقدامات اور افغانستان میں جاری انسانی بحران پر قابو پانے کی کوششوں کو مربوط کرنا ہے۔
واشنگٹن میں ازبکستان کے سفیر کا کہنا ہے کہ تاشقند اجلاس کا ایک اور ہدف بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے درمیان موثر مذاکرات اور اس سلسلے میں مشترکہ موقف اختیار کرنا ہے۔
افغان سیاسی امور کے ماہر رضا قاسمی کا کہنا ہے کہ تاشقند کانفرنس کا مقصد خطے کے ممالک کے تحفظات کی عکاسی کرنا ہے اور تاشقند کابل کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔
دریں اثنا، بھارتی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ بھارت کا ایک وفد بھی تاشقند بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے۔
"دی پرنٹ " کے مطابق تاشقند کانفرنس کے بعد 15-16 ستمبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کی دو روزہ کانفرنس بھی منعقد ہونے جا رہی ہے۔
ازبکستان افغانستان سے متعلق اہم اجلاسوں کا مقام رہا ہے۔ اس سے قبل 2018 اور 2021 میں یہاں کانفرنسیں ہوئی تھیں۔ گزشتہ سال کی میٹنگ جنوبی اور وسطی ایشیا اور افغانستان کے درمیان علاقائی رابطوں پر توجہ مرکوز تھی۔ اس کانفرنس میں أفغانستان کی نمائندگی اس وقت کے افغان صدر اشرف غنی نے کی تھی۔
15 اگست 2021 کو افغانستان میں برسراقتدار آنے والے طالبان حکومت کو تاحال کسی ملک نے باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے۔
تاہم طالبان نے روس اور چین سمیت متعدد پڑوسی اور علاقائی ممالک میں افغانستان کے سفارت خانوں میں اپنے سفارت کار تعینات کر رکھے ہیں اور ان ممالک نے کابل میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔