افغانستان میں، جس کو طالبان اسلامی امارت کا نام دیتے ہیں، طالبان کے راہنما مولوی ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا ہے کہ امارت کے خلاف بنا ثبوت الزامات لگانے کی ممانعت ہو گی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ متعدد احادیث بغیر ثبوتوں کے لگنے والے الزام کو جھوٹ قرار دیتی ہیں اور ایسے الزامات قابل سزا ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام شہریوں اور میڈیا تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حکمنامے پر فوری طور پر عمل درآمد کریں۔
تحریری بیان کے مطابق:
’’ اسلامی اقدار اور اسلامی شریعت کے مطابق، عہدیداروں کے بارے میں غیر ضروری الزامات اور غیر درست تنقید کی اجازت نہیں ہے۔ افواہوں کی اسلام میں گنجائش نہیں کیونکہ اس سے مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلتی ہے اور اس سے اعتماد کی نفی ہوتی ہے اور حوصلے متاثر ہوتے ہیں‘‘۔
طلوع نیوز کے مطابق علمائے کرام اور حکومتی ملازمین کی زبانی کلامی، جسمانی حرکات یا کسی بھی دوسرے طریقے سے تضحیک مناسب نہیں ہے۔
مقامی ٹی وی نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت کو لچک دار ہونا چاہیے اور تنقید کو قبول کرنا چاہیے۔
یہ خبر ایسے وقت میں آئی ہے جب طالبان کی تحویل میں رہنے والی آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی صحافی لین او ڈانل نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ طالبان نے انہیں سوشل میڈیا پر معافی نامہ ڈالنے پر مجبور کیا تھا۔ اوڈانل نے طالبان سے رہائی پانے کے بعد افغانستان چھوڑ دیا تھا اور پاکستان چلی گئی تھیں۔
طالبان کے وزیر خارجہ عبدالقہار بلخی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ آسٹریلوی صحافی کو افغانستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی کیونکہ ان کے بقول وہ موجودہ حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت کی کھلم کھلا حمایت کرتی رہی ہیں۔ اور ان کے الفاظ میں، وہ خلاف ورزیوں سے متعلق بھی غلط رپورٹنگ کرتی رہی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اوڈانل نے افغانستان میں اپنی موجودگی کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ لیکن عہدیداروں نے انہیں اس صورت ملک میں رہنے کی پیشکش کی تھی اگر وہ اپنے کسی بھی دعوے کے حق میں ثبوت فراہم کر سکیں۔
بیان کے مطابق، آسٹریلوی صحافی لین او ڈانل نے سوشل میڈیا پر معافی مانگنے کی پیشکش کی تھی ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان ان صحافیوں کا خیر مقدم کرتے ہیں جو صحافت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں لین اوڈانل نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر فغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لندن میں افغان سفارتخانے نے ان کو ویزا جاری کیا تھا۔ ان کے بقول انہوں نے کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر میڈیا ویزا کی درخواست دی تھی۔
’’ میں نے کسی بھی موقع پر اپنے بارے میں غلط بیانی نہیں کی‘‘
طالبان نے تحویل میں رکھنے کی کیا وجہ پیش کی تھی؟ اس سوال کے جواب میں او ڈانل نے کہا کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے بطور صحافی تسلیم نہیں کرتے۔ اور انہوں نے مجھ پر میری ان خبروں کے حوالے سے تنقید کی جو میں نے پچھلے سال پیش کی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے چاہا کہ میں ایک اعترافی ٹویٹ کر دوں کہ میں افغانستان اور افغانستان کی ثقافت کے بارے میں کچھ نہیں جانتی اور یہ کہ میں نے تمام کہانیاں خود سے گھڑی ہیں۔
اوڈانل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے ایجنٹ میرے گیسٹ ہاوس آئے اور مجھے ہیڈ کوارٹر لے گئے جہاں انہوں نے مجھے چار گھنٹے تک تحویل میں رکھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے جیل میں ڈال دیں گے جب تک کہ میں اعترافی بیان سوشل میڈیا پر جاری نہیں کرتی۔ یہ بیان انہوں نے مجھ سے زبردستی لکھوایا اور ٹویٹ کیا۔
اوڈانل نے مزید کہا کہ طالبان کا نگرانی کا نظام بہت بہتر ہوا ہے اور مجھے محسوس ہوا کہ میرا ٹیلی فون بھی محفوظ نہیں ہے اور ’ کمپرومائز‘ ہو چکا ہے۔