چین نے ایک ایسے وقت میں اپنا ایک فوجی بحری جہاز سری لنکا کے ساحلی شہر ہم بان ٹوٹا روانہ کیا ہے جب اس ملک میں سیاسی صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں یہ سوال جنم لے رہے ہیں کہ آیا چین سری لنکاکے ذریعے ، بحیرہ ہند کے ساحل پر، اپنی مستحکم فوجی موجودگی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین کی پیپلز لبریشن آرمی کا ، یوآن وانگ5 ، نامی اپنے اس بحری جہاز کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ایک سروے کرنے والا جہاز ہے جو بحیرہ ہند میں تحقیق کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن تجزیہ کار سوال کر رہے ہیں کہ اسپیس اینڈ سیٹلائٹ ٹریکنگ کے جدید ترین الیکٹرانک آلات سے لیس اس جہاز کو ، جو گیارہ اگست کوسری لنکا کی بندرگاہ پہنچنے والا ہے ۔ کیا اسٹریٹیجک مقاصد کے لئے وہاں بھیجا جا رہا ہے۔
سری لنکا کے ایک سابق سفارت کار دایان جیا ٹلیکا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین ہم بان ٹوٹا کی بندرگاہ کو، تجارتی اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ اسے فوجی مقاصد کے لئے بھی جہازوں کی آمدورفت رفت کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
اس بندر گاہ کے استعمال کے معاملے میں چین کا کچھ عمل دخل اس لئے ہے کہ سری لنکا کی حکومت نے دو ہزار سترہ میں اس بندرگاہ کو ، نناوے برس کے پٹے (لیز)پر چین کو دے دیا تھا۔کولمبو اس لیے اس بندرگاہ کا کنٹرول چین کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گیا تھا کیونکہ وہ ، چین کا وہ قرض ادا کرنے میں ناکام رہا تھا جو اس نے بندرگاہ کی تعمیر کے کے لئے چین سے لیا تھا۔
باور کیا جاتا ہے کہ سری لنکا کے سابق صدر گوٹا بایا راجہ پاکسے نے سری لنکا کی بندرگاہ پر چین کےجہازوں کو لنگر انداز کرنے کی منظوری دی تھی۔ اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ انکی جگہ لینے والی نئی حکومت ، جو ایک بڑی احتجاجی تحریک کے بعداقتدار میں آئی ہے، اس فیصلے کو منسوخ کرکے جہازوں کو بندر گاہ کے استعمال سے روک دے۔
سری لنکا کی نیشنل پیس کونسل کی جیہاں پریرا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سری لنکا کو مالی مدد کی ضرورت ہے اور وہ اجازت منسوخ کرکے چین کو ناراض نہیں کرنا چاہے گا۔
سری لنکا میں بھارت کے ایک سابق ڈپٹی ہائی کمشنر کے-پی فابیان کا کہنا ہے کہ چین کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ سری لنکا کی بندر گاہ تک اسکے جہازوں کو با آسانی رسائی حاصل رہے اور جب تک اسکا یہ مقصد پورا ہوتا رہے گا اسے کوئی اور فوجی اڈہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
SEE ALSO: سری لنکا کی معیشت کیوں تباہ ہوئی اور آگے کیا ہوسکتا ہے؟سری لنکا اس وقت جاری مالی بحران سے نکلنے کے لئے، آئ ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنا چاہتا ہے تاہم آئی ایم ایف کے ضوابط اس کے متقاضی ہیں کہ قرض کا خواہاں ملک پہلے اپنے پرانے قرضوں کی ادائیگی کا نظام الاوقات دے۔ اسکے بعد ہی اسکی نئے قرض کی درخواست پر غور کیا جا سکتا ہے
چین نےان لگ بھگ دس ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کا نیا نظام الاوقات مقرر کرنے کی سری لنکا کی درخواست مسترد کردی ہے۔ جنکی ادائیگی کا مقررہ وقت گزر چکا ہے۔ چین کے تعاون کے بغیر سری لنکا آئی ایم ایف سے قرض حاصل نہیں کر سکے گا۔ اور اسکا مالیاتی بحران اور گہرا ہو جائے گا۔
پریرا نے کہا کہ سری لنکا کی حکومت کو امید ہے کہ بیجنگ اسکی درخواست منظور کرلےگا اور یہ کہ وہ چینی مال خریدنے کے لئےکرنسی کے تبادلے کا معاہدہ بھی چاہتا ہے۔
اس کا امکان ہے کہ چین ایک قرض دینے والے ملک کی حیثیت سے سری لنکا پر دباؤ ڈالے کہ وہ چین کو اپنے علاقے میں فوجی تنصیبات تعمیر کرنے کی اجازت دے، جنہیں چین کے حریف بھارت کے خلاف استعمال کیا جاسکے
SEE ALSO: چین بھارتی ریاست اروناچل پردیش کو اپنا حصہ کیوں سمجھتا ہے؟فابیان کے مطابق بھارت کے لئے یہ شدید تشویش کا معاملہ ہے چین بھارت کے لئے فوجی چیلنجز پیداکرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اور یہ بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے۔
SEE ALSO: سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے 25 سالہ منصوبے کی تجویزسری لنکا میں چین کی فوجی موجودگی سے متعلق اقدامات صرف بھارت کے لئے ہی نہیں، بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں کے لئے بھی باعث تشویش ہونگے کیونکہ بحیرہ ہند کے ذریعہ ہی ایشیا ، یوروپ سے منسلک ہوتا ہے۔
سری لنکا کے اقتصادی بحرانکی وجہ اسکے، اکاون ارب ڈالر ز کےبھاری غیر ملکی قرضے ہیں ۔
چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے تحت سری لنکا میں کچھ انفرا اسٹرکچر منصوبوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جن میں بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی شامل ہیں۔ ان ک منصوبوں کے لئے چینی بنکوں نے مالی امداد فراہم کی ہے۔
اور پریرا کہتے ہیں کہ جب امریکی حکومت یہ کہتی ہے کہ چینی منصوبے اور قرضے انتہائی غیر شفاف ہیں جنکی قیمت انکی اصل قیمت سے زیادہ رکھی جاتی ہے. تو وہ بالکل درست کہتی ہےاور چین کے ایسے اقدامات کے نتیجے میں سری لنکا جیسے ملکوں میں بدعنوانی کا رجحان پیدا ہوتا ہے جس سے فنڈز میں سےخورد برد کے لئے سیاستدانوں اور عہدیداروں کی حوصلہ افزاہوتی ہے
Earlier, USAID Administrator Samantha Power said that China has financed infrastructure projects in Sri Lanka that often served little practical purpose.
اس سے قبل، یو ایس ایڈ کی منظمہ اعلیٰ سمانتھا پاور نے کہا تھا کہ چین نے سری لنکا کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے رقوم فراہم کی تھیں،مگر ان کا عملی طور پر سری لنکا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔