نعیم طاہر کو کون نہیں جانتا؟
پاکستان کے قیام کے پچھہتر برسوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی وہ شخصیات ، جو ملک کے سیاسی منظر سے ثقافتی منظر تک کئی دشوار اور نازک راستوں سے گزرچکی ہیں، ان میں نعیم طاہر بھی شامل ہیں۔
فلم ہو ، یا ڈرامہ، پاکستان کا کلچرل سین یا پھر ریسرچ اور تحقیقی کام ۔ اتنے مختلف شعبوں میں اپنی جدا شناخت بنانے والے نعیم طاہر سے پوڈ کاسٹ کے لئے بات ہوئی تواپنے تعارف کے بارے میں بابا بلھے شاہ کا معروف مصرعہ دہراتے ہوئے بولے ’’کی جاناں میں کون؟‘‘
’’ ہمیشہ وہ کیا جو میرے دل نے چاہا، کبھی کچھ مصلحت کے تحت نہیں کیا۔جب سے ہوش سنبھالا میری دلچسپی آرٹ اور کلچر میں رہی ‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
نعیم طاہر کی والدہ بر صغیر کی اولین خواتین ڈاکٹروں میں تھیں جبکہ والد عالم ہونے کے ساتھ ساتھ انسپیکٹر آف سکولز بھی تھے۔
’’ گناہگار ہوں کہ اس وقت کی روش یعنی ڈاکٹر یا انجنئیر بننے کی خواہش کو پورا نہ کر سکا ۔ لیکن آرٹ اور کلچر سے وابستگی اختیار کی اور خواہش یہ تھی کہ اس شعبے سے وابستہ افراد ایک با عزت روزگار سے منسلک ہو سکیں کیونکہ اس وقت اس فیلڈ سے وابستہ افراد کے بارے میں رویےمنفی ہی تھے۔‘‘
نعیم طاہر کہتے ہیں کہ انھوں نے کالج ہی میں اپنی سمت کا تعین کر لیا تھا۔ اس لیے انھوں نے کالج میں اردو ڈرامے کو فروغ دینے کی کوشش کی اور اپنے ایم اے کے فائنل میں ڈرامے کے سلسلے میں انھیں سید امتیاز علی تاج سے ملنے کا موقع میسر آیا اور وہ کہتے ہیں کہ ان سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔
’’ ڈرامہ میرا جنون تھا اور تاج صاحب سے بہت رہنمائی ہوئی۔ یاسمین طاہر سے شادی ہوئی تو وہ بھی ڈرامے کی شوقین تھیں اور پھر دونوں کو راک فیلر سکالرشپ مل گیا اور یونیورسٹی آف کیلے فورنیا سے تھئیٹر اور آرٹس میں ماسٹرز کرنے کا موقع ملا ‘‘
پاکستان جانے کے بعد انھوں نے آرٹس کونسل میں فیض صاحب کے ساتھ کام شروع کیا جنہوں نے انھیں ڈرامے کا انچارج بنا دیا۔ اور یہاں سے ان کی کوششوں سے اردو زبان میں اوریجنل ڈرامہ لکھنے کی جانب توجہ دی گئی ۔نعیم طاہر نے فیض صاحب کے بعد الحمرا آرٹس کونسل کی عمارت تعمیر کرائی جو ایک بڑی کامیابی تھی۔
پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے حوالے سےان کا نام ہمیشہ سرخیوں میں رہا۔ پاکستان کونسل فار نیشنل انٹیگریشن لاہور سینٹر کے ڈائریکٹرکے منصب سے شروع کرتے ہوئے انہوں نے متعدد اعلیٰ اور کلیدی منصب سنبھالے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نعیم طاہر نے سات سال کی تحقیق کے بعد خطے کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں’’ ملوحہ‘‘ (MELLUHAS) کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، جسے وہ اپنا اہم کام قرار دیتے ہیں۔
’بیتے لمحوں کی اس گزران میں ہم نے اپنا ایک بڑا نقصان کر لیا اور وہ یہ کہ ہم نے اپنی تاریخ اور روایت کی اچھی چیزوں کو نظر انداز کر دیا اور ان میں سب سے بڑی قربانی ہوئی زبان کی کیونکہ زبان ہماری ثقافتی روایات کی نمائندہ ہوتی ہے‘‘..انہوں نے کہا
نعیم طاہر قومی زبان کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کو بھی بہت اہم سمجھتے ہیں ۔
لیکن ان کے بقول، " ہم نے سب سے زیادہ نقصان اپنی روایت کا کیا ہے ۔ ہماری روایت میں بے حد خلوص ، پیار، محبت اور اچھا انداز گفتگو سبھی شامل تھا ۔ میں مانتا ہوں کہ وقت کے ساتھ اور مختلف سماجی اور سیاسی حالات کی وجہ سے ان میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ اور آنی بھی چاہئے کیونکہ زمانہ بدلتا ہے، اور انھیں قبول کرنا بھی چاہئے لیکن انسانی رویے جیسے اخلاق اور تہذیب کو انتہائی درجہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ تہذیب نظر انداز ہو تو پھر آرٹ اور کلچر بھی اس کا حصہ ہے‘‘۔
میں نے ان سے ان کے ایک ڈرامے ’’ جلسہ اردو ڈرامےکا‘‘ کی وجہ تسمیہ بھی دریافت کی۔جس کی دلچسپ توجیح آپ میری پوڈ کاسٹ میں سن سکتے ہیں اور اگر دل چاہے تو اس گفتگو میں اپنی آواز شامل کرنے کے لئے وائس آف امریکہ اردو کے سوشل میڈیا پیجز پر پوڈ کاسٹ کے لنک کے نیچے کمنٹس بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا ۔