واشنگٹن (ترجمہ و تدوین: شہناز عزیز) امریکہ اور بہت سے ممالک میں ایک عرصے سےبھارت کے متنوع عقائد سے تعلق رکھنے والےتارکین وطن بھائی چارے اورمذہبی ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ امریکہ میں نیو جرسی اور نیو یارک دو ایسے علاقے ہیں جہاں بڑی تعداد میں بھارتی ھندو اور مسلمان آباد ہیں یہاں گزشتہ دہائیوں میں اگر کسی فرقہ وارانہ تشدد کی اطلاعات سامنے ائیں تو وہ کسی تیسرے فریق کی جانب سے تھیں۔1975 سے 1993 تک نیو جرسی میں ایک گینگ ’ڈاٹ بسٹرز‘کے نام سے سرگرم تھا جس میں ڈاٹ سے مراد وہ بندیا ہے جو ہندو خواتین اپنے ماتھوں پر لگاتی ہیں۔اور یہ گینگ بھارتیوں کے بزنس اورکمیونٹی کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں ملوث تھا۔
اسی طرح 9/11 کے بعد جب مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم شروع ہوئی تو اس میں بھی ان کمیونٹیز نے ایک دوسرے کاساتھ دیا ایک دوسرے کے خلاف کام نہیں کیا۔ بلکہ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد بھارتی اپنی داڑھی کی وجہ سے ان انتہا پسند حملوں کا نشانہ بھی بنے جن کا ہدف دراصل مسلمان تھے
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن اس سال 2022 میں کچھ ایسےواقعات ہوئے جو مختلف عقائد کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے بھارتی امریکیوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ بنے۔
اگست میں ریاست نیو جرسی کے علاقے ایڈیسن میں بھی انڈین بزنس ایسوسی ایشن، نیو جرسی کی جانب سے بھارت کے یوم آزادی پر ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا ۔ اس ریلی کے گرینڈ مارشل دہلی سے تعلق رکھنے والے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی ترجمان سمبت پٹرا تھے۔
اس پریڈ میں ایک بلڈوزر بھی شامل تھا جس پر بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تصاویر لگی ہوئی تھیں بلڈوز کی موجودگی بہت سے بھارتی نژاد مسلمانوں میں غم وغصے کا باعث بھی بنی، کیونکہ وہ ہندوستان کی مسلم اقلیت پر ظلم کی علامت بن گیا ہے، سوشل میڈیا پر اس بلڈوزر کی تصاویر اور ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آیا۔ نیو یارک ٹائمز سمیت متعدد موقر اخبارات نے اس متنازع اقدام پر بات کی۔
بلڈوزر بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک ظلم اور بے انصافی کی علامت بن گیا ہے، جہاں اسے ان مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جن پر حکومت، ملک دشمن سرگرمیوں اور بلووں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتی ہے۔
اسی طرح حال ہی میں کیلیفورنیا کے شہر Anaheim میں ایک تہوار منانے والوں اور ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔
امریکہ میں ہونے والے ان حالیہ واقعات اور گزشتہ ماہ انگلینڈ میں لیسٹر میں کچھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پرتشدد تصادم نے ان خدشات کو بڑھا دیا ہے کہ ہندوستان میں شدید سیاسی اور مذہبی تقسیم بھارت سے باہر آباد کمونٹیز میں بھی پھیل رہی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں، وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے تحت ہندو قوم پرستی میں اضافہ ہوا ہے، جو 2014 میں اقتدار میں آئی اور 2019 میں جس نے بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق، حکمران جماعت کو حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اقدامات پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مسلم کمیونٹی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ کچھ ہندوبھی یہی کہتے ہیں کہ نریندرمودی کی خاموشی دائیں بازو کے گروہوں کو حوصلہ دیتی ہے اور قومی اتحاد کیلئے خطرہ بن رہی ہے۔
SEE ALSO: حجاب کا تنازع: بیرون ملک مقیم بھارتی کیا سوچتے ہیں؟یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں مذہب اورروحانیت کے شعبے کے ڈین ورون سونی کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرستی نے بھارت کی تارکین وطن کمیونٹی کو اسی طرح تقسیم کر دیا ہے جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت نے امریکہ کو منقسم کیا ہے۔ اس یونیورسٹی میں بھارت سے تعلق رکھنے والےتقریباً دو ہزاراسٹوڈنٹس ہیں، جو ملک میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
سونی نے اگرچہ ابھی تک کیمپس میں اس طرح کے تناؤ کو نہیں دیکھا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی کوان 50 سے زیادہ امریکی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے دھچکا پہنچا جس نے "عالمی ہندوتوا کے خاتمے" کےعنوان سے ایک آن لائن کانفرنس کو سپانسر کرنے میں شراکت کی تھی ۔
اس ٹوئیٹ کے مطابق امریکہ کے ایک درجن سے زیادہ اسکالرز نے انٹرویوز میں کہا کہ ہندو قوم پرست گروپ، اور بھارتی حکومت کے حامی بھارت اور جنوبی ایشیا کے ماہرین کے لئے ایک جارحانہ ٖفضا پیدا کرنے کا خطرہ بن رہے ہیں۔
’ہندوتوا ‘کی اصطلاح ہے کیا؟
2021 کے ایونٹ کا مقصد ہندوتواکے بارے میں آگہی پھیلانا تھا، جو سنسکرت کا لفظ ہے اور جس کا مطلب ہندو ہونے کا جوہرہے۔
’ہندوتوا‘ ایک ایسا سیاسی نظریہ ہےجوبھارت کو بنیادی طور پر ایک ایسی ہندو اکثریت والی قوم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جس میں ساتھ ساتھ کچھ اقلیتی عقائد بھی شامل ہیں جن کی جڑیں اس زمین میں ہیں جیسے سکھ مت، جین مت اور بدھ مت۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں دیگر اقلیتی مذہبی گروہوں کو الگ کر دیا گیا ہے جیسےمسلمان اور عیسائی ۔ ’ہندوتوا‘ ہندوازم سے مختلف ہے۔
سونی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ یونیورسٹیاں ایسے ادارے رہیں جہاں "ہم حقائق پر مبنی مسائل کے بارے میں مہذب انداز میں بات کر سکیں،" لیکن، یو ایس سی کے سربراہ کے طور پر، سونی کو اس بارے میں تشویش ہے کہ ہندو قوم پرستی پر پولرائزیشن، طلباء کی روحانی صحت کو کس طرح متاثر کرے گی۔
"اگر کسی پر ان کی شناخت کے لیے حملہ کیا جا رہا ہے، ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے یا اس لیے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے کہ وہ ہندو یا مسلمان ہیں، تو مجھے سب سے زیادہ ان کی بہبود کی فکر ہوگی - اس بارے میں نہیں کہ کون صحیح ہے یا غلط،" انہوں نے کہا۔
SEE ALSO: امریکہ کی بھارت میں پیغمبر اسلام سے متعلق متنازع بیانات کی مذمت
اننتانند رامبچن، ہندو عقائد پر عمل کرنےوالے شخص ہیں اورایک ریٹائرڈ مذہب کے پروفیسرہیں ۔ وہ ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو میں بھارتی نژاد خاندان میں پیدا ہوئے تھے، ان کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرستی کے لئے ان کی مخالفت اور اس نظریہ کے مخالف گروہوں کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے ریاست منی سوٹا کے ایک مندر میں جہاں وہ مذہب کی کلاسیں پڑھاتے ہیں، کچھ لوگوں کی طرف سے ان کے خلاف شکایتیں کی گئیں ۔
SEE ALSO: پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپینوں کی کشمیر سے متعلق ٹوئٹس پر بھارت میں شدید ردعمل
انہوں نے کہا کہ ہندو قوم پرستی کی مخالفت کرنے کے نتیجے میں، ان پر بعض اوقات "ہندو مخالف" یا "ہندوستان مخالف" ہونے کے الزامات لگتے ہیں جنہیں وہ مسترد کرتے ہیں۔
دوسری طرف، واشنگٹن ڈی سی میں ہندو امریکن فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر سمیر کالرا نے کہا کہ بہت سے ہندو امریکی سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کے خیالات کی وجہ سے بدنام کیا جارہا ہے اوراورہدف بنایا جارہا ہے،
انہوں نے کہا کہ "آزادی کے ساتھ اظہار خیال کرنے کی گنجائش ہندوؤں کے لیے سکڑتی جا رہی ہے" ۔انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰٰ کہ ہندوستانی حکومت کی ایسی پالیسیوں سے اتفاق کرنے کے نتیجے میں بھی ہندو قوم پرست کا ٹھپہ لگایاجا سکتا ہے، جن کامذہب سے تعلق نہ ہو۔
ان کی ہم خیال ،شمالی امریکہ میں ہندؤں کے کولیشن کی ترجمان پشپیتا پرشاد نے کہا کہ ان کا گروپ ایے نوجوان ہندو امریکیوں کی کونسلنگ کر رہا ہے جو اس لئےاپنے دوستوں سے محروم ہوگئےہیں کیونکہ وہ "انڈیا میں ہونے والی ایسی لڑائیوں میں فریق بننے سے انکارکرتے ہیں۔"
انہوں نے کہا، ’’اگر وہ فریق نہیں بنتے ہیں یا کوئی رائے نہیں رکھتے ، تو یہ خود بخود یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ وہ ہندو قوم پرست ہیں۔‘‘ بقول ان کے ’’ان کا پہلا وطن اور ان کا مذہب ان کے خلاف کھڑا کردیا جاتا ہے۔‘‘
دونوں تنظیموں نے ہندوتوا کو ختم کرنے کی عالمی کانفرنس کی مخالفت کی اور اسے "ہندو فوبک" قرار دیتے ہوئےکہا کہ یہ کانفرنس کوئی متنوع نقطہ نظر پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
دوسری طرف کانفرنس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ ہندوتوا کو ہندو مخالف قرار دینےجیسے نظریات کو مسترد کرتے ہیں۔
25 سالہ سرویہ تادیپلی جیسے کچھ امریکی ہندوۂں کا خیال ہے کہ اس مسئلے پربات کرنا ان کا فرض ہے۔ میساچوسٹس کی رہائشی تادیپلی نے، جو ہندوز آف ہیومن رائٹس ( Hindus for Human Rights ) کی بورڈ ممبر ہیں، کہا کہ ہندو قوم پرستی کے خلاف ان کے سرگرم ہونے کی وجہ ان کا عقیدہ ہے۔
وہ کہتی ہیں:
’اگر یہ ہندو مت کا بنیادی اصول ہے، کہ خدا ہر کسی میں ہے، اور یہ کہ ہر کوئی اس کا مظہرہے، تو میں سمجھتی ہوں کہ ہندوؤں کے طور پر ہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم تمام انسانوں کی مساوات ے لیے آواز بلند کریں۔ اگر کسی انسان کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے یا اس سے کم تر سلوک کیا جاتا ہے، تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کو درست کرنے کے لیے کام کریں۔‘‘
تادیپلی نے کہا کہ ان کی تنظیم سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات کو درست کرنے کے لیے بھی کام کرتی ہے جو اپنے براعظموں کےسفر میں نفرت اور پولرائزیشن کو ہوا دیتی ہیں۔
بھارت میں فرقہ واریت کو ہوا دینے والے کچھ حالیہ واقعات
بھارت میں کشیدگی جون میں اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب ادے پور شہر میں پولیس نے ایک ہندو درزی کا گلا کاٹنے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے الزام میں دو مسلمان مردوں کو گرفتار کیا۔ مقتول شخص، 48 سالہ کنہیا لال نے مبینہ طور پر ایک آن لائن پوسٹ شیئر کی تھی جس میں گورننگ پارٹی کی ایک عہدیدار کی حمایت کی گئی تھی جسے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز بیانات پر معطل کردیا گیا تھا۔
اسی طرح اگست میں گینگ ریپ کے بدنام زمانہ کیس میں بھارت کی ریاست گجرات میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور قتل کے سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کرنے کے متنازع فیصلے پر صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ردِ عمل سامنے آیا۔
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
ہندو قوم پرست گروہوں نے کھانے پینے یا حجاب پہننے سے لے کر بین المذاہب شادی تک ہر چیز سے متعلق مسائل پر اقلیتی گروہوں بالخصوص مسلمانوں پر نکتہ چینی یا ان کے خلاف اقدامات کئے ہیں۔ کچھ ریاستوں میں بھاری مشینری کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے گھروں کو بھی مسمار کیا گیا ہے، جسے ناقدین "بلڈوزر جسٹس" کا بڑھتا ہواماڈل قرار دیتے ہیں۔
اس طرح کی رپورٹوں سے مسلمان امریکیوں کو ہندوستان میں اپنے خاندان کے افراد کی حفاظت کا خوف ہے۔ آرٹیسیا، کیلیفورنیا میں قائم سماجی انصاف کی تنظیم، ساؤتھ ایشین نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شکیل سید نے کہا کہ وہ باقاعدگی سے اپنی بہنوں کی باتیں سنتے ہیں اور بےحدخوف محسوس کرتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ کل کیسا ہونے والا ہے۔"
سید ہندوستان کےشہر حیدرآباد میں 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں "ایک زیادہ،متنوع اور جامع ثقافت" میں پلے بڑھے تھے۔"میرے ہندو دوست ہماری عید کی تقریبات میں آتے اور ہم ان کی دیوالی کی تقریبات میں جاتے،" انہوں نے کہا کہ جب میرا خاندان گرمیوں کی چھٹیوں پر جاتا، تو ہم اپنے گھر کی چابیاں اپنے ہندو پڑوسی کے پاس چھوڑ دیتے، اور جب انہیں شہر چھوڑنا پڑتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتے۔
سید کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد اب ہندوستان میں مرکزی دھارے میں پہنچ گیا ہے۔انہوں نے اپنے خاندان کی لڑکیوں سے سنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے اپنے حجاب یا اسکارف اتارنے پر غور کر رہی ہیں۔
امریکہ میں، وہ اپنے ہندو دوستوں کو کھلے عام اس طرح کے موضوعات پر بات کرنے سے ہچکچاتے ہوئے دیکھتےہیں کیونکہ وہ اپنے خلاف انتقامی کارروائی سے ڈرتے ہیں۔
’’بات چیت اب بھی ہو رہی ہے، لیکن یہ ہم خیال لوگوں کے ساتھ بند دروازوں کے پیچھے ٹکڑوں میں ہو رہی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر ان لوگوں کے درمیان ڈائیلاگ نہیں ہو رہا ہے جو مخالف نظریات رکھتے ہیں۔"
ہیوسٹن میں مقیم ایک ہندو سرگرم کارکن راجیو ورما اس کے بالکل برعکس نظریہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی ہندوستان میں ہونے والے واقعات کی عکاسی نہیں ہے بلکہ یہ ایسے"مذہبی اور نظریاتی گروہوں کی دانستہ کوششوں سے پیدا ہوئی ہے جو ہندوؤں کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔"
ورما کا خیال ہے کہ ہندوستان ایک "ہندو ملک" ہے اور "ہندو قوم پرستی" کی اصطلاح محض اپنے ملک اور مذہب سے محبت کا حوالہ دیتی ہے۔ وہ ہندوستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں جو فتح کرنے والوں اور نوآبادیاتی طاقتوں کے ہاتھوں تباہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی تہذیب کو بحال کرنے کا حق ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں مقیم انڈین امریکن مسلم کونسل کے شریک بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر رشید احمد نے کہا کہ انہیں دکھ ہوا ہے کہ "یہ دیکھ کر کہ پڑھے لکھے ہندو امریکی بھی ہندو قوم پرستی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔"
ان کا خیال ہے کہ ہندو امریکیوں کوایک بنیادی فیصلہ کرنا چاہیے کہ کس طرح ہندوستان اور ہندو ازم کو امریکہ اور پوری دنیا میں دیکھا جانا چاہئے۔
’’ہندومت کو جس نے بھی ہائی جیک کیا اسے واپس لینے کا فیصلہ ان ہی کا ہے۔‘‘
(ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک خصوصی رپورٹ،جس کی مصنفین دیپا بھارت اور مریم فام ہیں اور وائس آف امریکہ کے لیے شہناز عزیز نے قطع برید و اضافت کے ساتھ اس کو تحریر کیا ہے)