بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے تحقیقاتی ادارے اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) نے وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ایک اہلکار کے خلاف پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا ایجنٹ اور کالعدم عسکری تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیش محمد کا آلہ کار ہونے کے الزام میں فردِ جرم عائد کردی ہے۔
حالیہ برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سی آر پی ایف کے کسی رکن پر اس طرح کے الزامات کے تحت کارروائی کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے کرپشن، نا اہلی، مشکوک وفاداری اورسماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 36 پولیس اہلکاروں کو بھی نوکری سے برطرف کیا ہے۔
سری نگر میں ایس آئی اے کے ایک ترجمان نے کہا کہ سی آر پی ایف کی 181 ویں بٹالین میں تعینات اہلکار ذوالفقار علی کھٹانہ کے خلاف تحقیقات کے دوران یہ نشاندہی ہوئی کہ وہ آئی ایس آئی کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تعینات بھارتی حفاظتی دستوں کی سرگرمیوں، نقل و حرکت اور ان کی تنصیبات کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتا ہے ۔
ترجمان نے کہا کہ ذوالفقار علی کھٹانہ کا تعلق جنوبی ضلع اننت ناگ سے ہے اور وہ پہلے سے ہی حراست میں ہے۔
ترجمان کے بقول اہلکار کے خلاف سری نگر میں قائم پولیس اسٹیشن میں ایک قابلِ اعتماد ذریعے سے ملنے والی اطلاع کے بعد مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ذولفقار علی کھٹانہ نے پاکستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں اور ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو حساس دفاعی تنصیات کے بارے میں خفیہ معلومات اور دستاویزات فراہم کیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سی آر پی اہلکار نے دشمن ملک سے جموں و کشمیر میں پُر تشدد اور دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کے سلسلے میں ہدایات حاصل کیں اور انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ایک معاون اور آلہ کار کے طور پر کام کیا ۔
ملزم کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون ، تعریزاتِ ہند ، آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور اینمی ایجنٹ آرڈیننس کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور ان ہی دفعات کے تحت فردِ جرم بھی عائد کی گئی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت میں کھٹانہ کے خلاف دائر کی گئی فردِ جرم کے مطابق ملزم پاکستان میں جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کے اراکین اور آئی ایس آئی کے ایجنٹوں سے مسلسل رابطے میں تھا۔
ایجنسی نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ لوگ 'سائبر اسپیس' کو کشمیری نوجوانوں کو عسکریت اور تشددپر اکسانے اور پرتشدد سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے فنڈ زاکٹھا کرنے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
ایجنسی کا مزید کہنا ہے اس نیٹ ورک کے اراکین کی تلاش شدو مد سے جاری ہے اور ان کے خلاف شہادت اور ثبوت معاملے کی مزید تحقیقات کے دوران جمع کیے جائیں گے۔
فردِ جرم کے مطابق یوسف بلوچ اور مبینہ نیٹ ورک میں شامل دوسرے افراد نے ہی کھٹانہ کو اپنے ایک معاون ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ فردِ جرم میں الزام عائد کیا گیا ہے نہ صرف بصیغہ راز معلومات حاصل کی جاتی رہیں بلکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشیمر سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں در اندازی کرنے والے عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے کا کام بھی لیا گیا۔
فردِ جرم کے مطابق کھٹانہ جموں و کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے کے منصوبے کی تکمیل کے لیے عسکریت پسندوں کو بھارتی سیکیورٹی فورسز اور ان کی اہم تنصیبات اور کیمپوں پر حملے کرنے اور دوسری تخریبی کارروائیاں انجام دینے میں ان کی مدد کرتا تھا۔
36 پولیس اہلکاروں کی برطرفی
جمعرات کو ہی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے 36 پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے سبکدوش کرنے کے احکامات جاری کیے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان اہلکاروں میں سے کئی ایک کو رشوت ستانی، سماج دشمن اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا، یا ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی جب کہ بعض کی وفاداری مشکوک تھی۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ"محکمہ پولیس زیادہ مؤثر اور شفاف بنانے کی کوشش کے طور پر حکومت نے 36 پولیس اہلکاروں کو کرپشن اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں نوکری سے قبل از وقت برطرف کردیا ہے۔ ان اہلکاروں نے اپنی ڈیوٹیاں کچھ ایسے انداز میں انجام دیں جو ایک عوامی خادم کے شایانِ شان نہیں اور ان کارویہ قائم شدہ ضابطہ اخلاق کے منافی بھی تھا۔"
بیان کے مطابق ان اہلکاروں کے خلاف کی گئی یہ کارروائی ایک ایسے مسلسل عمل کا حصہ ہے جس کے تحت جموں و کشمیر کنڈکٹ آف سروس رولز کی دفعہ 226(2) کے مطابق سرکاری ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اب تک کئی سرکاری ملازمین کو ان کے خلاف تحقیقات مکمل ہونے پر سبکدوش کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ کئی ملازمین کو ملک (بھارت) دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر بھی برطرف کیاگیا ہے۔
واضح رہے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نےچند برس قبل اس کے بقول، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنےکا اعلان کیا تھا ۔
بھارتی حکومت نے اب تک درجنوں ملازمین کو اس الزام کے تحت برطرف کردیا ہے جب کہ کئی سرکاری ملازمین کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں نے ملک یا سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا ہے۔ برطرف یا گرفتار کیےگئے ملازمین میں علحیدگی پسند سیاسی اور عسکری لیڈروں کےقریبی رشتے دار بھی شامل ہیں۔ چند ایک کے خلاف یہ دونوں کارروائیاں کی گئی ہیں۔
حکومت نے گزشتہ برس ستمبر میں اپنے تقریباً پانچ لاکھ ملازمین کو متنبہ کیا تھا کہ کسی بھی ملک دشمن یا پر تشدد سرگرمی میں ان کی بالواسطہ یا بلا واسطہ شمولیت یا اس میں ان کی معاونت ان کی برطرفی کا موجب بن سکتی ہے۔
بھارتی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ انتظامیہ کو 'ڈیڈ ووڈ' یا ایسے افسران اوردیگر ملازمین سے پاک کرنے کے لیے بھی پرعزم ہے جن کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ سربراہ انتظامیہ لیفٹننت گورنر منوج سنہا نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ حکومت رشوت خور اور کام چور ملازمین کو بھی برداشت نہیں کرے گی اور ان کے خلاف سخت کاررائی میں کوئی لیت ولعل نہیں کیا جائے گا ۔
مقامی صحافیوں کے خلاف فردِ جرم
جمعے کو ایس آئی اے نے مقامی صحافی فہد شاہ اور کالم نویس عبدالعلیٰ فاضلی کے خلاف فیک نیوز یا جعلی خبریں پھیلانے اورقانون اور امنِ عامہ کے مسائل پیدا کرنے کے لیے عام شہریوں کو اکسانے کے الزامات میں فردِ جرم عائد کردی ہے۔
فہد شاہ کو پولیس نے رواں برس پانچ فروری جب کہ فاضلی کو 17 اپریل کو گرفتار کیا تھا۔
چارج شیٹ کے مطابق 'دی کشمیر والا ' ڈیجیٹل میگزین میں جس کے فہد شاہ مالک و مدیر ہیں کچھ عرصہ پہلے 'غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی' کے عنوان کےتحت ایک مضمون چھپا تھا جوانتہائی اشتعال انگیز اور فتنہ انگیز تھا۔
جب یہ مضمون چھپا تھا فاضلی یونیورسٹی آف کشمیر میں ایک ریسرچ اسکالر تھے اور پولیس حکام کے الزام کے مطابق ان کے اس مضمون میں آزادی اور عسکریت پسندوں کے بیانیے کا بار بار ذکرکیا گیا ہے۔