گزشتہ پندرہ برسوں میں چین نے سری لنکا میں انفراسٹرکچرکے بڑے بڑے پراجیکٹس کی تعمیر کے لئے فنڈنگ کی ہے۔ لیکن اس سال ملک کی معیشت کی بد حالی کے بعد اس بارے میں سوال اٹھے ہیں کہ آیا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے سلسلے میں تعمیر کئے گئے ان پراجیکٹس نے اس ملک کے بحران میں کوئی کردار ادا کیا ہے ۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے سلسلےمیں تعمیر کئے گئے اس طرح کے پراجیکٹس کا مقصد سری لنکا کی معیشت کو فروغ دینا تھا۔ اب جب ملک اپنے بدترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے انہیں سفید ہاتھی پراجیکٹس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے - جو اس کے قرض میں اضافہ کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں بلند شرح سود کے ساتھ بڑی مقدار میں قرضوں کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا ۔
سیکیورٹی اور جیو پولیٹیکل تجزیہ کار اسانگا ابیاگوناسیکیرا کہتے ہیں کہ سری لنکا کے کولمبو پورٹ سٹی کے بارے میں یہ خیال کیا گیا تھا کہ وہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کرے گا۔ ایسا نہیں ہوا ہے۔اس وقت ایک بھی سرمایہ کار نہیں ہے۔اس لئے ان تمام پراجیکٹس کے ریونیو ماڈلز پر یہ اعتراض کیا جا رہاہے کہ وہ معیشت کے محصولات میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے ۔
چینی پراجیکٹس پر توجہ اس وقت مرکوز ہوئی جب اس سال کے شروع میں سری لنکا کے پاس خوراک ، تیل اور ادویات درآمد کرنے کے لئے زرمبادلہ ختم ہو گیا۔ شدید اقتصادی بحران نے بائیس ملین آبادی کے اس ملک میں سے بہت سے لوگوں کو غربت میں دھکیل دیا۔
اس ملک میں جو کسی زمانے میں درمیانے درجے کی آمدنی والا ملک تھا ، افراط زر میں اضافے کے باعث معیار زندگی گر گیا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کے اندازے کے مطابق لگ بھگ 60 لاکھ لوگوں کو مالی اعانت کی ضرورت ہے ۔
ملک کے اس بحران کا الزام سابق صدر مہندا راجہ پاکسے کی زیر قیادت حکومت کی بد انتظامی اور کویڈ 19 وبا پر عائد کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں بحر ہند کے اس خوبصورت ملک کی سیاحت سے حاصل ہونے والی اہم آمدنی کو نقصان پہنچا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چینی فنڈز سے چلنے والے پراجیکٹس پر خرچ کئے گئے اربوں ڈالرز نے سری لنکا کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے ۔ اندازوں کے مطابق سری لنکا کے 40 ارب ڈالر کے قرضوں میں چینی قرضوں کا حصہ 10 سے 20 فیصد تک ہے۔
نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاونڈیشن میں خارجہ پالیسی کے شعبے کے نائب صدر ہرش پنت کہتے ہیں کہ چین ایسےانتظامات پر کام کرنے کے لئے معروف ہے جو اکثر اوقات اس سے کہیں زیادہ مہنگے ثابت ہوتے ہیں جتنے کہ وہ محض کاغذ پر دکھائی دیتے ہیں۔ چین سے اس قسم کےعارضی فوائد حاصل کرنے کے دیر پا نتائج کو سمجھنے میں سری لنکا کے سیاسی طبقے کی ناکامی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے ۔
SEE ALSO: چین کا جہاز سری لنکا میں بدستور لنگر انداز، نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان تلخی میں اضافہتجزیہ کاروں کے مطابق چین کے قرض کی وجہ سے سری لنکا کے لئے بیجنگ کے کسی اقدام سے انکار مشکل ہو سکتا ہے ۔ اگست میں سری لنکا کے حکام نے چینی بحریہ کے جہاز یواں وانگ 5 کو بھارت اور امریکہ کے اعتراضات کے بعد ابتدا میں چینی تعمیر کردہ بندرگاہ ہمبانٹوٹا پر لنگر انداز ہونے کی اجازت سے انکار کیا لیکن بعد میں اسے اس کی اجازت دے دی ۔
چین نے اس بحری جہاز کو ایک سائنٹفک اور تحقیقی جہاز قرار دیا ہے لیکن سیکیورٹی کے تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس پر تشویش ہے کیوں کہ وہ خلائی اور سیٹلائٹ ٹریکنگ الیکٹرانک آلات سے بھرا ہوا ایک نگرانی کا جہاز تھا جو راکٹ اور میزائل لانچوں کی نگرانی کر سکتا ہے۔
اس واقعے سے ان خدشات کو تقویت ملی کہ چینی منصوبے بحر ہند میں اس کے اسٹریٹجک عزائم سے منسلک ہیں۔ ہمبنٹوٹا بندرگاہ 2017 میں اس وقت چین کو 99 سال کے لیے لیز پر دی گئی تھی جب سری لنکا اس کی تعمیر کے لیے لی گئی قرض کی رقم واپس نہیں کر سکا۔
سیکیورٹی اور جیو پولیٹیکل تجزیہ کار اسانگا ابیاگوناسیکیرا کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں سری لنکا میں سول آپریشن سے زیادہ بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ مستقبل میں کوئی فوجی آپریشن متعارف کرا سکتے ہیں مثلا ہمبنٹوٹا سے۔
چین ایسی کسی تنقید کو مسترد کرتا ہے ۔ گزشتہ ماہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ، Zhao Lijian نے کہا تھا کہ بیجنگ نےسری لنکا میں سرمایہ کاری سے کبھی بھی کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔
ترجمان نے کہا کہ بیجنگ کو سری لنکا کی مشکلات کا احساس ہے اور وہ سری لنکا میں اپنی صلاحیت کے مطابق معاشی اور سماجی ترقی میں مدد کی پیشکش بھی کرتا رہا ہے۔
سری لنکا کو اب امید ہے کہ وہ چین سے اپنے قرض کی تنظیم نو کے لئے جلد مذاکرات کرے گا جوبین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 2 اعشاریہ 9 ارب ڈالر کابیل آوٹ حاصل کرنے اور اقتصادی بحالی شروع کرنے کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
کولمبو نے قرض حاصل کرنے کے لیے ستمبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کا معاہدہ کیا تھا، لیکن قرضوں کی تنظیم نو کا انحصار اسے قرض دینے والے ملکوں کی یقین دہانیوں پر ہے جن میں چین، بھارت اور جاپان شامل ہیں ۔
وی او اے نیوز