'زمیں پہ جنت' کے ٹائٹل سے پاکستان کے بارے میں شائع ہونے والی ایک تازہ کتاب, تبصروں، تنقیدی جائزوں یا افسانوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کا ایک باتصویر تعارف ہے جو اس کے دلکش مناظر، ثقافت، تاریخی مقامات اوراس کی جغرافیائی خصوصیت کی جھلک پیش کرتا ہے۔
اس کتاب کی تقریب رونمائی مسلمز آف امریکہ اور رنگ محل نام کی تنظیموں کی مشترکہ میزبانی میں واشنگٹن کے مضافات میں ریاست میری لینڈ میں منعقد ہوئی۔ تارکینِ وطن نے پاکستان کو درپیش سیاسی کشیدگی اور اقتصادی چلینجز کے ماحول میں اس موقع کو تازہ ہوا کے ایک جھونکے سے تعبیر کیا۔
فوٹوگرافر گلریز غوری کی گزشتہ چار عشروں میں لی گئی تصویروں پر مشتمل کتاب "پاکستان ہیون آن ارتھ " میں قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں اور پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبوں کے میدانی علاقوں کے علاوہ سندھ کے صحراؤں اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی تصاویر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کے ثقافتی ورثے، ہم عصر ترقی یافتہ شہروں، ملک کے مختلف حصوں میں تاریخی مقامات، اسلامی، انڈس، ہڑپا،بدھ مت، اور سکھ تہذیبوں کے اہم مقامات، فن پاروں اور جدید فنِ تعمیر کی تصویریں بھی شامل ہیں جن کی اہمیت کو انگریزی زبان میں بیان بھی کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تقریب کے دوران پاکستان کی موسیقی ، خطاطی کے نمونے اور پاکستان کے رنگوں میں رنگا اور ٹرک آرٹ کی طرز پر سجا ایک اسکوٹر بھی پاکستانی امریکی اور دوسری کمینویٹیز سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے پر کشش رہا۔
تقریب کے میزبان اور مسلمز آف امریکہ کے بانی ساجد تارڑ نے کہا کہ پاکستانی امریکی اپنے آبائی ملک کے لئے بہتری کے جذبے سے سرشارہیں اور آج کل کے "گھٹن" کے ماحول میں پاکستان کے قدرتی حسن ، اس کی ثقافت اور فن کے بارے میں یہ کتاب ایک خوشگوار جھونکا بنی۔"
فوٹو گرفر گلریز غوری کی کاوشوں کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم امریکہ میں پاکستان کی ثقافت اور اس کے صحیح اسلامی تشخص کے بارے میں امریکیوں کو آگاہ کرنے کے لیے مزید ایسے ایونٹس کی میزبانی کرے گی۔
ایک مصری نژاد امریکی شہری سارا ابراہیم نے کتاب میں پیش کیے گئے پاکستان کے دلفریب قدرتی نظاروں ، اس کی جغرافیائی اہمیت اور اس کی بھر پور ثقافت کے حوالے سے کہا،"مجھے ایسا لگا کہ ایک ملک کی سیر سے جیسے پوری دنیا کی سیر ہوگئی ہے"۔
امریکی شہری کیلی سوزین گولڈ برگ نے ، جو کہ کارپوریٹ وکیل ہیں اور دو بار پاکستان جاچکی ہیں، کہا کہ پاکستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے تمام تر خبروں کے برعکس انہوں نے پاکستان کو ایک خوبصورت ملک اور اس کے لوگوں کو بہترین مہمان نواز پایا۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا، "مجھے تو پاکستان جا کر اس ملک سے محبت ہوگئی۔"
اس موقع پر بہت سے ذہنوں میں پاکستان کی سیاحت سے متعلق سوالات اٹھے۔ آخر سیاحت کے اتنے زیادہ پر کشش امکانات، تاریخی مقامات، سرمایہ کاری کے مواقع، جانفشاں کارکنوں اور تہذیبی ورثے کے باوجود پاکستان اس شعبہ کے فروغ میں دوسرے ممالک کی طرح کامیابی حاصل کیوں نہیں کرسکا۔
گزشتہ کچھ دہائیوں پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں ڈومیسٹک یعنی اندرونی سیاحت میں تو کئی گنا اضافہ ہوا لیکن افغان جنگ کے دوران سیکیورٹی کی صورت حال اور پھر اس کے بعد کرونا کی عالمی وبا کے سالوں میں ملک ،بین الااقوامی سیاحوں کی تعداد میں زیادہ بڑا اضافہ نہ دیکھ سکا۔
پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق کرونا بحران سے قبل سال 2019 میں سفر اور سیاحت کی صنعتوں کی سرگرمیاں ملکی معیشت کا 5.9 فیصد تھیں جبکہ ان دو شعبوں میں ملازمتیں پاکستان کی کل ملازمتوں کا 6.2 فیصد تھیں۔ یوں اس سال سفری اور سیاحتی سرگرمیوں سے ملکی پیداوار کے حوالے سے 4.7 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی سال بیرونی ممالک سے آنے والے سیاحوں کی وجہ سے 852.2 ملین ڈالر کی سرگرمیاں ریکارڈ کی گئیں جو کہ ملکی برآمدات کا تقریباً 3 فیصد تھیں۔
بین الااقوامی ٹریول کمپنی گو زیان کے مطابق طویل معاشی اور سیاسی بحران کے باوجود رواں سال پاکستان میں سیاحت بتدریج بڑھ رہی ہے اور بین الاقوامی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ملک کا رخ کر رہی ہے۔
لیکن کاروباری شخصیات اور ماہرین کے مطابق ابھی سیاحت کے فروغ کے لیے پاکستان کو بہت کچھ کرنا ہے جس میں بنیادی انفرااسٹرکچر کا مہیا کرنا اور ملک کی سیکیورٹی میں بہتری لانا اہم ترین پہلو ہیں۔
ساجد تارڑ، جو امریکہ اور پاکستان میں کاروبار چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان کو ترکی اور مصر کے ماڈلز کو دیکھنا ہوگا کہ آخر انہوں نے کیا اقدامات اٹھائے کہ وہ بین الااقوامی سیاحوں کے لیے دلکش منزل بن گئے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہمیں اس مقصد کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا ہوگا، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ہم پاکستان کو ایک سیاحت کی منزل کے طور پر مارکیٹ کرنے کا موقع کھو رہے ہیں۔"
بحیثیت پاکستانی، انہوں نے کہا ، کہ وہ ملک کے پوٹینشل کو امریکہ میں متعارف کرنے کے لیے پاکستانی امریکیوں کے ساتھ ملک کر ملک کے فن اور اس کی ثقافت پر مزید تقریبات کی میزبانی کریں گے۔
پاکستانی آرٹس اور کرافٹس کی تنظیم رنگ محل کے ڈائریکٹر سید محمودشاہ، جو سیاح کی حیثیت سے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کرچکے ہیں، کہتے ہیں کہ سیاحت کا فروغ ایک اجتماعی قومی ذمہ داری ہے اور یہ صرف حکومت ہی کا کام نہیں ہے۔
کوہ پیمائی کی مہمات کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کے ٹو سمیت دنیا کی کئی بلند ترین چوٹیاں پاکستان میں واقع ہیں جنہیں سر کرنے کے لیے ہزاروں افراد ملک کا ر خ کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر کوہ پیماہ حکومت کو صرف ایک مختصر سی رقم بطور ایکسیپیڈیشن فیس ادا کرتا ہے لیکن ان کی آمد سے پیدا ہونے والی سرگرمیوں سے سیاحت سے وابستہ کئی بڑے اور چھوٹے مقامی کاروبار آمدن حاصل کرتے ہیں۔
محمود شاہ نے کہا، "لہذا میرے خیال میں ہر پہلومیں ترقی اور ترویج کے لیے حکومت سے توقعات رکھنا صحیح نہیں ہے ۔ نجی شعبے کو بھی پاکستان میں بین الااقوامی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اس کی پبلیسیٹی کے لیے کام کرنا ہوگا جبکہ مختلف سطحوں پر حکومت کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہوگی۔"
کیلی سوزین گولڈ برگ کہتی ہیں کہ یہ بات افسوس ناک ہے کہ اتنے پرکشش قدرتی مقامات اور جاندار ثقافت کے باوجود پاکستان ابھی تک عالمی سیاحوں کی بڑی منزل نہیں بن سکا۔
Your browser doesn’t support HTML5
"اگر میں آپ کو اپناتجربہ بتاوں تو مجھے کئی ملکوں میں جانے کا موقع ملا، لیکن میں نے آج تک پاکستانیوں سے زیادہ اچھے میزبان لوگ کہیں نہیں دیکھے۔ اور جہاں تک سکیوریٹی کے بات ہے تو مجھے پاکستان کے بارے میں خطرات کی بات بہت مبالغہ آمیز معلوم ہوئی ہے۔"
علاوہ ازیں ، انہوں نے کہا کہ ان کا تجربہ بتاتا ہے کہ پاکستان کو غیر ملکی سیاحوں کے لیے ویزےجاری کرنے کے طریقہ کار کو آسان بنانا چاہیے ۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان نے ملک پہنچنے پر آن ارائیول ویزا دینا شروع کیا ہے۔
کیلی گولڈبرگ کہتی ہیں،"پاکستان کی ان کہی کہانی اجاگر کرنے کی کو ششوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت اہم ہےکہ سیاح ملک کے لوگوں سے ملنے میں آسانی محسوس کریں کیونکہ قدرتی حسن اور تاریخی مقامات کی اہمیت تو اپنی جگہ ہے لیکن انسانی سطح پر روابط بہت ضروری ہیں اور میرے لیے بہت بڑی بات رہی ہے کہ میں پاکستانیوں سے ہر جگہ پر انگریزی زبان میں بات کرپاتی ہوں۔"