کرونا بحران میں بری طرح متاثر ہونے والی سیاحت کی صنعت کی بحالی دنیا کے لیے بڑے چلینجوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سیاحت کے شعبے میں عالمی وبا سے پہلے کی سطح پر سرگرمیاں لوٹنے میں ا بھی کم از کم دو سال مزید درکار ہوں گے۔
ماہرین کی نظر میں عالمی ادارہ سیاحت کی ورلڈ ٹوئرزم بیرومیٹر کی رپورٹ پوری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ بن کر سامنے آئی ہے، کیونکہ نہ صرف ترقی یافتہ ممالک بلکہ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پزیر ممالک کی معیشت کی بحالی کئی زاویوں سے سیاحت کی رونقوں کی واپسی سے وابستہ ہیں۔
رپورٹ میں درج اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی وبا کے پہلے سال کےمقابلے میں سن 2021 میں بین الااقوامی سیاحت کی آمدن میں 4 فیصد بہتری آئی اور اس دوران چالیس کروڑ اور پندرہ لاکھ سیاحوں نے اپنے پسندیدہ مقامات کا رخ کیا۔ لیکن ابھی بھی پچھلے سال کی سرگرمیاں وبا سے پہلے سن 2019 کے مقابلے میں بہت کم رہیں اور آمدن 2019 کے مقابلے میں 72 فیصد کم رہی۔
سن 2021 میں سیاحتی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدن اندازاً 1.9 ٹریلین ڈالر رہی، جوکہ سن 2019 کے 3.5 ٹریلین ڈالر سے بہت کم ہے۔
2021 کے مقابلے میں ادارے نے اس سال بین الاقوامی آمدن میں 30 سے 78 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اس امید افزا صورت حال کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو ویکسینیشن کی مہم پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
اس سے قبل یو این ٹی ڈبلیو او کے مخفف سے جانے والےعالمی ادارے نے ٹیکنالوجی کے موئثر استعمال سمیت مختلف اقدامات پر زور دیا ہے تاکہ دنیا کرونا کے سائے میں اور خاص طور پر وائرس کی اومکیرون قسم سے نمٹتے ہوئے اس اہم اقتصادی شعبے کی بحالی کی طرف گامزن ہو سکے۔
پاکستان کو سیاحت کی بحالی کی جانب کیا اقدامات اٹھا نا ہوں گے اور پاکستان ان رپورٹس کی سفارشات کے تناظر میں کہاں کھڑا ہے ؟ وائس آف امریکہ نے ان سوالات کو ماہرین کے سامنے رکھا تاکہ پاکستان کی اس اہم صنعت میں فروغ کے امکانات کو دیکھا جاسکے۔
اندرون ملک سیاحت ، سہولیات اور حکومتی عملداری
پاکستان جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دلفریب مناظر، تہذیبی اور تاریخی مقامات اور نوادرات سے مالا مال ہے، گزشتہ عشرے میں سلامتی کے مسائل کے سبب سالوں بین الااقوامی سیاحوں کی آمد میں کمی کا سامنا رہا اور جب سن 2019 میں بیرون ممالک سے سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا تو سال کے آخر میں عالمی وبا کے پھوٹنے سے بین الااقوامی سیاحت کو بھی دھچکا لگا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس دوران اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے قومی سیاحت کے فروغ کے لیے پانچ سالہ منصوبے جیسے اہم اقدامات اٹھائے، دوسرے ممالک کی طرح کرونا بحران کے باعث مجموعی طور پر بین الاقوامی سیاحت آگے نہ بڑھ سکی۔حکومتی کوششوں کے سلسلے میں حال ہی میں وزیر اعظم نے اعظم جمیل کو سیاحت کے شعبے کا مشیر بھی مقرر کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں کئی سالوں سے اندرونی سیاحت ملک کی اقتصادی بہتری اور ٹورزم کی صنعت کے فروغ کے لیے ایک روشن پہلورہی ہے۔لیکن اس ضمن میں بھی پاکستان کو سیاحوں کو سہولیات اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
اس پہلو پر بات کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم ادیب ، سلامتی اور بین الااقوامی امور کے ماہر شجاع نوازنے مری میں برفباری کے دوران سیاحوں کی ہلاکت کے واقع کی طرف توجہ دلائی، جہاں لوگوں کے بڑی تعداد میں برف پوش مقام کی طرف رخ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں اندرون ملک سیاحت کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔ وہاں اس واقعے نے حکومتی عملداری میں خامیوں اور محفوظ ماحول کی ناکافی سہولیات کی نشاندہی کی ہے۔
شجاع نواز کہتے ہیں کہ حکومت کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے موثر کوششیں کرنا ہوں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں پانچ کروڑ افراد پر مشتمل ایک بڑی مڈل کلاس موجود ہے اور ان میں شامل بڑی تعداد میں لوگ پاکستان کے شمالی علاقوں جیسے سیر و تفریح کے مقامات جانا چاہتے ہیں اور بہت سے تاریخی مقامات کی دریافت میں دلچسبی رکھتے ہیں۔ لیکن بہتر سفری انفرا سٹرکچر کی سہولیات کے فقدان کے باعث لوگ بڑی تعداد میں ایسا نہیں کرپاتے۔شجاع نواز کے مطابق اگر بہتر سروسز مہیا کی جائیں تو ملک کے اندر سیاحتی سرگرمیوں سے مقامی اور قومی سطحوں پر اقتصادی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے جوکہ لوگوں اور حکومت دونوں کے لیے مفید ہو گا۔
ٹیکنالوجی کا کردار
ورلڈ ٹورزم آرگنائزیشن نے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاحت کو فروغ دینے پر زور دیا ہے۔ عالمی ادارے نے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت دنیا بھر سے صارفین اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔پہلے سے ہی 60 ممالک میں فعال اس ٹول کے ذریعہ مسافروں کی اپنی دلچسپی کی تمام معلومات کو ایک جگہ پر جمع کیا جاتا ہے۔ یوں سیاحوں کے تجربات پر مبنی اطلاعات کو اکٹھا کرکے ایک سرکردہ ایپلی کیشن بنائی جارہی ہے جو تمام سیاحتی مقامات کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
لیکن کیا ٹیکنالوجی کا محض یہ استعمال پاکستان کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے؟
ملک میں سیاحت کے فروغ کے ادارے پاکستان ٹوئرزم ڈیولیپمنٹ کارپوریشن نے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک سیاحتی منزل کے طور پر پیش کرنے کے لیے برینڈ پاکستان نامی مہم کی تیاری کی ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان تمام تر پر کشش مقامات اور سیاحتی مواقع ہونے کے باوجود طویل عرصے سے جاری سلامتی کے مسائل اور اس شعبے میں چلتی آرہی عدم دلچسبی کے باعث اپنے آپ کو دنیا میں موثر انداز سے پیش نہیں کرسکا۔
پاکستان کےپہلے سیاحتی چینل 'ڈسکور' کے صدر ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی کا کہنا ہے کہ ٹیکنا لوجی کااستعمال پاکستان کے لیے کئی حوالوں سے اہم ہے۔ایک تو یہ کہ لوگوں میں ملک میں بیش بہا سیاحتی مقامات اور مواقع ہیں جن کے متعلق میڈیا کے جدید پلیٹ فارمز کے ذریعہ اندرونی اور بیرونی سیاحوں میں آگاہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ موسم اور معروضی صورت حال کے بارے میں لوگوں کو خبردار رکھا جاسکتا ہے تیسرا یہ کہ نوجوان نسل سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کے ذریعہ نہ صرف ان مقاما ت کے متعلق بات کر سکتی ہیں بلکہ یہ پلیٹ فارمز نوجوان لوگوں کے لیے اقتصادی مواقع بھی مہیا کرتے ہیں۔
اپنی بات کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر کاظمی کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر کچھ لوگ تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں، کچھ لوگ اچھے موسم اور قدرت کے حسین مناظر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں بہت سے میسر مواقعوں میں سے کچھ کا انتخاب کرنا ہے۔ ایسے میں اگر متعلقہ حکومتی اداروں اور ہمارے جیسے پراؕئیویٹ چینل اور عوام کی طرف سے ان مقامات کے متعلق تاثرات اور انفرا سٹرکچر کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں تو وہ اعتماد سے حالات کے مطابق تیاری کر کے اپنی من پسند جگہوں کا رخ کر سکتے ہیں۔
بقول ان کے،""آج کے دور میں لوگ سلامتی کے ماحول کو بھی دیکھتے ہیں اور سفری اور قیام کی سہولیات کو بھی مد نظر رکھتے ہیں اور وہ تمام میڈیا پر بھی نظر رکھتے ہیں‘‘
مذہبی سیاحت کے امکانات
پاکستان کی سرزمین دنیا کی قدیم ترین اور عظیم ترین تہذیبوں کی نشانیاں لیے ہوئے ہے۔ جن میں ٹیکسلا، مردان اور سوات پر مشتمل گندھارا خطہ اس اعتبار سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ بعض مورخین کے مطابق بدھ مت مذہب کی قدیم ترین نشانیا ں پاکستان ہی میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ اور بلوچستان میں ہندوؤں کے قدیم مندر، سکھ مذہب کے پیشوا گرونانک کی جائے پیدائش حسن ابدال اورمغلیہ دور کی فن تعمیر کے شاہکاروں سمیت مسلمانوں کی قدیم تاریخی عمارات اور وسطی ایشیا اور عرب سےآئے صوفی شخصیات کے مقامات بھی ملک میں موجود ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے کچھ سال قبل سکھوں کی اہم عبادت گاہ کرتاررپو ر گردوارے کا سیاحوں کے لیے افتتاح کیا ، ماہرین کہتے ہیں کہ مذہبی سیاحت کے مواقع کے مقابلے میں ملک اس سے کئی درجے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔کچھ ماہرین کے مطابق صرف مذہبی سیاحت پاکسستان کو ہر سال کئی سو ملین ڈالرز کا زرمبادلہ دلا سکتی ہے۔
شجاع نواز کہتے ہیں کہ دورواقع ممالک سے بین الااقوامی سیاحوں کے لیے پاکستان کو پرکشش بنانے کے مقابلے میں مذہبی سیاحوں کے لانے میں کہیں کم کوششیں اور وقت درکار ہوگا۔ اپنی کتابوں "بیٹل فار پاکستان" اور" کراس سورڈز" میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ پاکستان کے لیے بھارت سیاحوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں سکھوں اور ہندووں کے مذہبی مقامات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ پاکستان اپنے تمام پڑوسی ممالک کے لیے مذہبی سیاحت کے لیے ایک اہم منزل ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی کا کہنا ہے کہ پاکستان چین اور جاپان سے بھی بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے ہر سال ان کا پسندید ہ سیاحتی ملک بن سکتا ہے۔لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل اور مذہبی سیاحت کے فروغ کے لیے پاکستان کو ویزا دینے کے عمل کو بھی آسان کرنا ہوگا۔
سہولیات، سلامتی اور اقتصادی مواقع
یوں تو عالمی سیرو تفریح کی راہ میں کرونا وائرس سے بڑی کوئی ایمرجنسی حائل نہیں ہے کیونکہ یہ تمام ممالک کے لیے ایک یکساں چیلنج ہے۔لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے حوالے سے سازگار ماحول سیاحوں کی اولین ترجیح رہی ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی جو کہ مغربی اور مشرقی ممالک میں سفر اور بین المذاہب میل جول کا طویل تجربہ رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ سلامتی کا ماحول بین الاقوامی لوگوں کے لیے سر فہرست مسئلہ ہے اور یہی اس صنعت کی ترقی کی ضمانت ہے۔
دوسری طرف شجاع نواز کےمطابق ملک کے کچھ حصے جیسا کہ افغان سرحد کے قریبی علاقے اور صوبہ بلوچستان کےکچھ شورش زدہ علاقوں میں سلامتی کے مسائل جاری ہیں، پاکستان کو چاہیے کہ وہ اسپیشل اکنامک زونز کی طرز پر سیاحتی مراکز میں سلامتی اور سہولیات کو یقینی بنائے تاکہ سیاحتی صنعت کو ترقی مل سکے۔
علاوہ ازیں ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سروسز اور سفری سہولیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ شجا ع نواز کہتے ہیں کہ لازمی نہیں کہ ہر مقام پر فائیو اسٹار ہوٹلز موجود ہوں۔ حکومت اور نجی سیکٹر کو مل کر ان سہولیات کو کاٹیج صنعت کے طور پر فروغ دینا چاہیے، تاکہ مقامی سطح پر لوگ سیاحت کے فوائد اٹھا سکیں اور ملک میں اقتصادی مواقع کے ساتھ ساتھ سلامتی اور حفاظت کے متعلق آگاہی بڑھ سکے۔
ڈاکٹرذوالفقار کاظمی کا کہنا ہے کہ پاکستان جو دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کا مسکن ہے وہاں کوہ پیمائی کے لیے سہولتوں کا فروغ بہت اہم ہے ۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ حال ہی میں سکردو ہائی وے کی تعمیر نے سکردو اور گلگت میں فاصلے کو سمیٹ دیا ہے اور اب سیاحوں کے لیے 12 گھنٹوں کی بجائے ان دو مقامات میں چند گھنٹوں کی مسافت رہ گئی ہے۔
شجاع نواز کہتے ہیں کہ اس وقت جبکہ دنیا کو اومیکرون جیسے انتہائی متعدی وائرس نے آن لیا ہے کسی بھی ملک سے یہ توقع رکھنا کہ سیاحت کو جلد ہی بڑے پیمانے پر بحال کر لےمحض ایک خیالی بات محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے حقیقت پسندانہ راہ یہی ہے کہ وہ عالمی وبا کے دوران سیاحت میں وقفے کو ملک میں سہولیات اور سروسز کے شعبوں میں بہتری لانے پر توجہ مرکوز کرے اور مذہبی سیاحت کے فروغ کے لیے اقداما ت ا ٹھائے تاکہ اگلے کچھ سالوں میں ملک سیاحوں کے لیے پہلے سے کہیں بہتر منزل کے طور پر ابھرسکے۔