امریکہ اور میکسیکو سرحد پر تارکین وطن کےخاندانوں کا ایک دوسرے سے جدا ہو جانا ،مصنفہ ازابیل آئی اینڈے کے لیے ہمیشہ تکلیف دہ رہا ہے لیکن جب ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ازابیل نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو پہلا خیال انہیں اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے بچوں کو ان کے والدین کے ساتھ دوبارہ ملانے میں مدد کرنے کا آیا جس کے بعد چلی سے تعلق رکھنے والی مصنفہ نے اس تکلیف دہ صورتحال کو اپنی نئی کتاب کا موضوع بنانے کا سوچا۔
ایوارڈ یافتہ اور دنیا میں ہسپانوی زبان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مصنفہ کا نیا ناول"The Wind Knows My Name "ہے ،جو امیگریشن،تشدد،یکجہتی اور محبت جیسے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے ۔ یہ ناول جون کے شروع میں شائع ہوا اور امریکہ ،اسپین اور لاطینی امریکہ کے بک اسٹورز میں دستیاب ہے۔
ازابیل آئی اینڈے کی اب تک سات کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ کتابیں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اسی سالہ مصنفہ کو، سرحد پر بچوں کی ان کے والدین سے علیحدگی نے ماضی کے ایسے ہی تکلیف دہ واقعات کی یاد دلا دی جب غلام بنائے گئے یا مقامی خاندانوں کے بچے ان کے والدین سے چھینے جا رہے تھے ۔
ازبیل نے کیلیفورنیا میں فرانسیسی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا،" میں نے یہ خوفناک واقعات پہلی بار نہیں دیکھے ۔یہ ان والدین اور ان کے بچوں کے لیے ایک خوفناک،بھیانک،المناک اور تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے جس کی ٹیس وہ اپنے دل میں دبائے پروان چڑھتے ہیں ۔بس یہی میری اس نئی کتاب کا ماخذ ہے ۔"
اس ناول میں حقیقت اور افسانے کو ملایا گیا ہے اور ان فیصلوں پر غور کیا گیا ہے جو مائیں اپنے بچوں کو بچانے کے لیے کرتی ہیں، یہ تشدد کے سامنے بچوں کی لچک کے بارے میں بھی ایک کہانی ہے۔
لیکن اصل خیال ایک 7 سالہ نابینا لڑکی جولیانا پر یہ ناول لکھنا تھا۔ازابیل نے جولیانا کے بارے میں ازابیل آئی اینڈے فاؤنڈیشن کے توسط سے جانا ،یہ فاؤنڈیشن ، خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ میکسیکو کی سرحد پر کام کرنے والے گروپوں کی مالی مدد بھی کرتی ہے۔
دو ہزار انیس میں اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ پہنچنے پر، جولیانا کو اپنی ماں سے الگ کر دیا گیا جبکہ وہ امیگریشن سسٹم کے ریکارڈ میں کہیں موجود نہیں تھی لیکن وکلاء کی کوششوں کی بدولت وہ آٹھ ماہ کے بعد اپنے والدین سےجا ملی ۔
اگرچہ مصنفہ کو جولیانا سے ذاتی طور پر ملنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ اسے اپنے خاندان سمیت میکسیکو واپس بھیج دیا گیا تھا لیکن اس کہانی نے آئی اینڈے کو ماضی کے ایک ایسے ہی المیےکی یاد دلائی،جس نے ان کے دل کو بہت تکلیف پہنچائی تھی اور وہ تھی ہولوکاسٹ کے دوران تقریباً 10,000 یہودی بچوں کی ان کے خاندانوں سے علیحدگی، جو زندہ رہنے کے لیے پولینڈ، آسٹریا، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک سے انگلینڈ بھیجے گئے۔
ایک دوسرے سے مماثل یہی واقعات ان کے 346 صفحات پر مشتمل نئے ناول "The Wind Knows My Name "
کا مرکزی خیال ہیں ۔جس میں انیتا ڈیاز کا کردار جولیانا اور سیموئیل ایڈلر کا کردار ہزاروں یہودی بچوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ ناول 1938 کے آخر میں سیموئیل کے آبائی شہر ویانا میں گزری اس کی زندگی سے شروع ہوتا ہے جب سیموئیل کی ماں اسے ظلم و ستم سے بچانے کے لیے،کنڈرٹرانسپورٹ پروگرام کے ذریعے انگلینڈ بھیجتی ہے، اس پروگرام نے ہولوکاسٹ کے دوران ہزاروں یہودی بچوں کی جانیں بچائیں۔
آٹھ دہائیوں بعد، انیتا، ایل سلواڈور میں تشدد سے بچنے کے لیے ٹرین میں سوار ہوتی ہے اور امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے اپنی خالہ لیٹیشیا ہی کے راستے پر چلتی ہے، جو ایل موزو کے سانحے سے بچنے کے بعد فرار ہو گئی تھی، جو 1981 میں ایل سلواڈور کی مسلح افواج کے ہاتھوں قتل عام کا واقعہ تھا۔ جس دوران تقریباً ایک ہزار لوگ مارے گئے تھے ۔
انیتا اور اس کی والدہ کی امریکہ آمد اس وقت ہوتی ہے جب پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی امریکہ آمد کی حوصلہ شکنی کی کوشش کے لیے ایک امیگریشن پالیسی تشکیل دی جا رہی ہوتی ہے ۔
ازابیل آئی اینڈے ،کئی دہائیوں سے امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں مقیم ہیں وہ کہتی ہیں کہ جب میں لکھتی ہوں تو کوئی پیغام یا وعظ کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ وہی لکھتی ہوں جو محسوس کرتی ہوں یا جس نے میرے دل پر گہرا اثر اور نقش چھوڑا ہوتا ہے ۔
اس ناول میں آئی اینڈےنے دیگر وجوہات کے علاوہ تشدد، غربت یا بدعنوانی کی وجہ سے بھاگنے والے خاندانوں کے ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ امیگریشن پالیسیوں اور ان کے اثرات کا بھی ذکر کیا ہے جسے ازابیل طاقت کا غلط استعمال کہتی ہیں ، اور ان ہزاروں وکلاء، سماجی کارکنوں، ماہرین نفسیات اور دیگر رضاکاروں کو خراج تحسین پیش کیا ہے جو ان خاندانوں کو دوبارہ ملانے میں مدد کے لیے بغیر معاوضے کےکام کرتے ہیں۔
اگرچہ ناول کی کہانی کا زیادہ تر حصہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور سے متعلق ہے لیکن ناول میں سابق صدر کی شناخت، نام سے ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
چالیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ شدہ 25 سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ ازابیل آئی اینڈے کے لیے، ناول لکھنا کپڑے سے سینری بنانے کے مترادف ہے جس میں آہستہ آہستہ نقطے جوڑے جاتے ہیں اور رنگ شامل کیے جاتے ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ جب یہ انجام کو پہنچتا ہے تو آپ کو "ایک زبردست راحت" محسوس ہوتی ہے۔
اس ناول کے کردار وں کے بارے میں وہ کہتی ہیں، ان کو میں نے اپنے دماغ میں ایک سال سوچا ،بنایا سنوارا ،اور اس دوران انہوں نے میری نیندیں بھی اڑائے رکھیں اور اب آخر کار سب کے سب ناول کے صفحات میں قید ہو گئے ہیں ۔
( اس خبر کی معلومات اے پی سے لی گئیں)