لبنان کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں فلسطینی دھڑوں کے درمیان تین روز کی جھڑپوں میں پیر کےروز مرنے والوں کی تعداد 9 ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینی صدر محمود عباس کی فتح پارٹی کے ارکان اسلام پسند گروپس کے خلاف ہو گئے ہیں ۔
لبنان کے ایک قانون ساز نے پیر کی رات فائر بندی کا اعلان کیا لیکن کچھ گولیاں اس کے بعد بھی چلتی رہیں اور جنوبی لبنان کے عين الحلوہ کیمپ کی تنگ سڑکوں میں ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری کو روکنے کی اس سے قبل کی کوششیں ناکام ہو گئیں ۔
ایک فلسطینی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تشدد کا آغاز ہفتے کو اس وقت ہوا جب ایک نامعلوم مسلح شخص نے فلسطینی عسکریت پسند رکن محمود خلیل کو ہلاک کرنے کی کو شش کی لیکن ان کے ساتھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔
ایک فلسطینی عہدے دار کے مطابق ، اتوار کو اس کے بعد بھر پور جھڑپیں شروع ہوگئیں جب اسلام پسند عسکریت پسندوں نے فتح گروپ کے ایک فوجی جنرل ابو اشرف الارموشی اور ان کے تین محافظوں کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا جب وہ ایک پارکنگ لاٹ سے گزر رہے تھے ۔
پیر کے روز لبنانی حکام اور سیکیورٹی فورسز اور فلسطینی دھڑوں کے درمیان ایک میٹنگ کے بعد ، لبنانی قانون ساز اسامہ سعد نے ، جو کیمپ کے علاقے صیدا کی نمائندگی کرتے ہیں، فائر بندی کے ایک نئےمعاہدے کا اعلان کیا۔
سعد نے اس سے قبل ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ عہدے دارکیمپ کے اندر کی صورتحال کا کوئی سنجیدہ ، موثر، پائیدار اور ٹھوس حل تلاش کرنے کےلئے غیر معمولی کوششیں کر رہے ہیں۔
اس اعلان کے بعد فائرنگ کی شدت میں کمی آئی لیکن اکا دکا گولیاں چلتی رہیں۔
لبنانی فوج کے ایک ترجمان کرنل فادی ابو عید نے پیر کو تصدیق کی کہ الحلوہ کیمپ میں کم از کم نو لوگ ہلاک ہوئے ۔ کیمپ کے باہر دو فوجی معمولی زخمی ہوئے ۔
لبنانی فوج کے اہلکار ایک بیرونی چیک پوائنٹ پر متعین ہوتے ہیں لیکن روائتی طور پر کیمپ کے اندر نہیں جاتے جس کا کنٹرول فلسطینی دھڑوں کے پاس ہے ۔ کچھ لبنانی عہدے دار جھڑپوں کے سلسلے میں مطالبہ کر چکے ہیں کہ کیمپوں کا کنٹرول سنبھالنے کے لئےفوج تعینات کی جائے ۔
سرکاری قومی نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ لبنانی رکن اسمبلیکتائب پارٹی کے سر براہ سیمی جمائیل نے، جنہوں نے لبنانی خانہ جنگی کے دوران فلسطینی لبریشن فرنٹ کے خلاف اسرائیل کے ساتھ اتحاد کیا تھا، پیر کولبنان کے لیے امریکی سفیر ڈوروتھی شی سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ کیمپوں کو غیر مسلح کیا جائے اور ان کا کنٹرول لبنانی فوج کے سپرد کر دیا جائے ۔
اتوار کو فلسطینی دھڑوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ صیدا شہر میں لبنانی شیعہ امل موومنٹ اور عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کی میزبانی میں ہونے والی ثالثی کی ایک میٹنگ کے دوران فائر بندی پر رضامند ہو گئے تھے ۔ لیکن وہ فائر بندی برقرار نہیں رہی ۔
کیمپ کے قریب سائیڈن کے مضافات کے کچھ رہائشی اس کے بعد اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ گئے جب گاہے گاہے چلنے والی گولیوں سے ان کے گھروں کی کھڑکیو ں اور دکانوں کو نقصان پہنچا ۔ سائیڈن کے عوامی جنرل ہسپتال کو اس کے اسٹاف اور مریضوں سے خالی کرا لیا گیا۔
فتح نے ایک بیان میں سیکیورٹی کے اپنے عہدے دار کی ہلاکت کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ وہ حملہ “خونریزی کی اسکیم کا حصہ تھا جس کا مقصد ہمارے کیمپوں کی سیکیورٹی اور استحکام کو ہدف بنانا ہے” ۔ بیان میں قصور واروں کو جواب دہ ٹھہرانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
حریف دھڑے حماس نے پیر کو اپنا بیان جاری کیا جس میں لڑائی کی مذمت کی گئی اور اپنے ہی لوگوں کی خونریزی ختم کرنے اور امن عامہ کو بر قرار رکھنے کے لئے گفت و شنید اور ان جھڑپوں کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کےلئے ایک تفتیشی کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔
لبنان کے نگران وزیر اعظم نجیب میکاتی اور عباس دونوں نے اتوار کو تشدد کی مذمت کے بیانات جاری کیے۔
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورک ایجنسی “ “UNRWA میں لگ بھگ پانچ لاکھ فلسطینی رجسٹرڈ ہیں اگرچہ خیال ہے کہ ملک میں اصل تعدا د تقریباً 20 ہزار ہے ، کیوں کہ بہت سے وہا ں سے نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن ان کے نام بدستور ایجنسی کی فہرست میں موجود ہیں۔
( اس رپورٹ کامواد اے پی سے لیا گیا ہے)