کیا آپ یقین کریں گے کہ ہنگر ی کے دوسرے سب سے بڑے دریا سے ایک دن میں صرف 150 رضاکاروں نے ایک میٹرک ٹن پلاسٹک اور دوسرا کچرا اپنے ہاتھوں سے اکٹھا کرکے کنارے پر ایک ٹریلر پر ڈھیر کر دیا !
یہ کارنامہ انجام دیا ہے انہوں نے اس سالانہ پلاسٹک کپ مقابلے کے تحت جو ہر سال سب سے زیادہ کچرا اکٹھا کرنے والوں کو ایک انعام سے نوازتا ہے ۔
3 201 میں اس مقابلے کے آغازسے اب تک دس سال میں رضاکاروں نے ہنگری کے دریائے ٹسزا اور دوسرے پانیوں سے 330 ٹن یعنی لگ بھگ 7 لاکھ 27 ہزار پاونڈ کچرا اکٹھا کیا ہے ۔
اس دس روزہ سالانہ مقابلے میں ، ہر عمر کے رضاکارحصہ لیتے ہیں۔ لائف جیکٹس پہنے، درجنوں کشتیوں میں سوار یہ رضاکار دریا کے ڈھلوانی کناروں پر کچرے کے ڈھیروں کے پاس جا کر اپنے ذرد رنگ کے تھیلوں کے ساتھ کشتیوں سے اتر کر ،گھنے پودوں میں داخل ہوتے ہیں ،موٹے موٹے مچھروں، کانٹوں اور دوسری رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے پلاسٹک اور دوسرا کچرا تلاش کر کے اپنے بیگ بھرتے ہیں ، انہیں کشتیوں میں لاد کر واپس آتے ہیں اور کچرے کومرکزی کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں ۔
پلاسٹک کپ مقابلے کے ڈائریکٹر ، یولٹ ٹامز کہتے ہیں کہ اس کوشش کا مقصد صرف ہنگری کے قدرتی ماحول کی بہتری اور حفاظت ہی نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ کچرے کو چھوٹے اور بڑے سمندروں تک پہنچنے سےپہلے ہی روک کر بڑھتے ہوئے عالمی ماحولیاتی بحران سے نمٹنا ہے ۔
ٹامز نے کہا کہ دریا،کچرے کی عالمی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ کچرا دریاؤں سے بہتے ہوئے چھوٹے سمندروں اور پھر بڑے سمند ر میں جا گرتا ہے جہاں سمندری ریلے اسے بہا کر مختلف مقامات پر کچرے کے بڑے جزیروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس عالمی مسئلے کو دریاؤں ہی پر روک دیں تو سمندروں میں کم کچرا جائے گا۔ اگر کچرا دریائے ٹسزا میں جائے گا ہی نہیں تو پھر ہمیں سمندر سے کچھ بھی صاف نہیں کرنا پڑے گا۔
پلاسٹک کے عالمی بحران سے نمٹنے کے مطالبوں میں حالیہ برسوں میں اس کے بعد سےاضافہ ہوا ہےجب ریسرچز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ آلودگی ماحول اور انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ساحلی وائلڈ لائف اور آبی مخلوق کے لئے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ۔
یہ رضاکار جو ہر رات ایک نئے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں ، ہر سال دریائے ٹسزا سے اوسطاً ستر ٹن یا ایک لاکھ 54 ہزا ر ٹن کچرا اکٹھا کرتے ہیں۔
اس گروپ کا اندازہ ہے کہ وہ اب تک ہنگری کی آبی گزرگاہوں سے لگ بھگ چار ملین پلاسٹک کی بوتلیں اور دوبارہ استعمال کے قابل مواد اکٹھا کر چکے ہیں۔
ری سائیکلنگ کے قابل جمع کئے گئے مواد میں سے 60 فیصد پراسسنگ کے لیے ری سائیکلنگ کی فیکٹریوں میں بھیجا جاچکا ہے جب کہ باقی کو زمین کی بھرائی کے لیے بھیج دیا گیا ہے ۔
لیکن پلاسٹک کپ کے پراجیکٹ لیڈر اور ایک کنزرویشن انجینئر Gergely Hanko کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہاتھوں سے بہت زیادہ کچرا ہٹایا جا سکتا ہے لیکن ابھی بھی دریا میں بہت سا کچرا ایسا ہے جہاں تک پہنچنا مشکل ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کا حتمی مقصد کچرا اکٹھا کرنا نہیں بلکہ کشتیوں پرلمبے لمبے تفریحی ٹرپ ترتیب دینا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ دریائے ٹسزا کو مسلسل صاف کرتے رہیں تاکہ آخر کار ہمیں کشتیوں پر صرف پیڈل ہی چلانے پڑیں ۔اوراس کے ساتھ کچرا ہٹانے سے بچ جائیں۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیاہے )