اس ہفتے جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کاشتکاری میں استعمال ہونے والا پلاسٹک دنیا بھر میں زرعی مٹی میں خطرناک حد تک جمع ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے نوٹ کیا کہ پلاسٹک کو زراعت میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پلاسٹک بیجوں کی" کوٹنگ" میں استعمال ہوتا ہے اور اسے مٹی کے درجہ حرارت کو تبدیل کرنے اور فصلوں پر گھاس کی افزائش کو روکنے کے لیے حفاظتی لفافوں کے طور بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ مصنوعی مواد جان بوجھ کر "بائیو سالڈ" کھاد میں بھی شامل کیا جاتا ہے، جسے کھیتوں میں پھیلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کو آبپاشی کی ٹیوبوں، بوریوں اور بوتلوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ساتھ ہی رپورٹ نےخبردار کیا ہے کہ اگرچہ ان تمام مصنوعات نے فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں مدد کی ہے، لیکن اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد موجود ہیں کہ ناکارہ پلاسٹک مٹی کو آلودہ کر رہے ہیں۔ ناکارہ پلاسٹک حیاتیاتی تنوع اور مٹی کی صحت کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
عالمی ادارے کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق کھادوں میں استعمال ہونے والا "مائیکرو پلاسٹک" فوڈ چین کے ذریعے لوگوں میں منتقل ہونے پر انسانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
رپورٹ کی شریک مصنفہ سڈنی یونیورسٹی سےتعلق رکھنے والی پروفیسر ایلین بیکر نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ دنیا کو صرف ایک محدود مقدار میں زرعی زمین دستیاب ہے۔
انہوں نے کہا:
’’ہم یہ سمجھنا شروع کر رہے ہیں کہ پلاسٹک کے استعمال سے مٹی کی صحت، حیاتیاتی تنوع اور پیداواری صلاحیت پر وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، یہ سب خوراک کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہیں‘‘۔
ماحولیاتی پروگرام سے منسلک ماہرین بتاتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کے بڑے ٹکڑے 5 ملی میٹر سے کم لمبے ٹکڑوں میں ٹوٹ کر مٹی میں جا سکتے ہیں۔
ماہرین واضح کرتے ہیں کہ یہ مائیکرو پلاسٹک زمین کی جسمانی ساخت کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ مائیکرو پلاسٹک زمین کی پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت کو محدود کر سکتے ہیں اور جڑوں کی نشوونما اور غذائی اجزا کو کم کرکے پودوں کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔
مٹی میں ’’مائکرو پلاسٹک‘‘ آلودگی کا سب سے بڑا موجب بننے والی آرگینک مادے سےبننے والی کھاد ہے۔ اگرچہ یہ کھاد تیار کرنے میں سستی اور بہتر ہو سکتی ہیں، لیکن کھاد کو انہی پلاسٹک کے "مائیکرو سفیئرز "کے ساتھ ملایا جاتا ہے جو عام طور پر بعض صابن، شیمپو اور میک اپ مصنوعات میں استعمال ہوتے ہیں۔
ان حقائق کی روشنی میں انسانی صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو کچھ ممالک نے ان "مائیکرو اسفییئرز" پر پابندی لگا دی ہے۔ دوسرے مائیکرو پلاسٹکس سگریٹ کے فلٹرز، ٹائر کے اجزاءاور مصنوعی کپڑوں کے ریشوں کے ذریعے ہمارے پانی کے نظام میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔'
رپورٹ کے مصنفین کی طرف سے تجویز کردہ ایک حل نام نہاد ’کور فصلیں‘ہیں، جو مٹی کے لیے ڈھال کا کام کرتی ہیں اور ان کا مقصد کٹائی نہیں ہوتا۔
ماحولیاتی پروگرام نے کہا کہ فطرت پر مبنی حل جڑی بوٹیوں کو دبا سکتے ہیں، مٹی کی بیماریوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور مٹی کی زرخیزی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
لیکن ساتھ ہی رپورٹ ان خدشات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ پیداوار کو کم کر سکتے ہیں اور لاگت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں بیکر کہتی ہیں ’’ان میں سے کوئی بھی حل جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ پلاسٹک سستا ہے اور اس کے ساتھ کام کرنا آسان ہے، جس کی وجہ سے کوئی متبادل متعارف کرا نا ایک مشکل کام ہے۔‘‘