ہائی اسکولوں کے طالبعلموں کو اسرائیلی فلسطینی بحران کے بارے میں کیا پڑھایا جانا چاہئے ؟ یہ ہے وہ سوال جس پر امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک اسکول ڈسٹرکٹ میں غزہ کی جنگ سے بھی پہلے غور کیا جا چکا ہے ۔ لیکن اب معاملہ کچھ مزید آگے بڑھ گیا ہے۔
جنوبی کیلی فورنیا کے سانٹا آنا اسکول ڈسٹرکٹ نے جب اسرائیلی فلسطینی ہسٹری کے ایک کورس کے منصوبوں کا اعلان کیا تو ایک فلسطینی نژاد امریکی طالبہ آیاہ میتانے سوچا کہ اس سے لوگوں کو اس کی فلسطینی جڑوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ یہ سمجھا سکیں گی کہ فلسطین کیا ہے؟ یہ کہاں واقع ہے ۔ اس سے اسےاچھا محسوس ہو گا ۔ اور اگر لوگ اس کی شناخت کو تسلیم نہیں کر رہے تو نہ تو وہ اور نہ ہی کوئی اور خوش ہو گا۔ لیکن ابھی تک اسے اس بارے میں کوئی اچھی خبر نہیں ملی ہے۔
کیلی فورنیا کے ضابطوں کے تحت جو ہائی اسکول کے طالبعلموں کے لیے نسلی مطالعہ پر مبنی کورسز کو لازمی قرار دیتے ہیں ، ان کورسز میں تعصب، عدم برداشت یا امتیاز کی عکاسی نہیں ہونی چاہئیے اور نہ ہی اسے فروغ دیاجانا چاہئیے
سانتا انا میں اسرائیلی ۔فلسطینی کورس کو 2024 میں شروع ہونا ہے ۔ لیکن یہودی گروپس کے ایک اتحاد نے اسے روکنے کے لیے ایک مقدمہ دائر کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس کورس میں صیہونی مخالف مواد شامل ہے۔
SEE ALSO: امریکی نوجوانوں کی نمائندہ شاعرہ کی مشہور نظم پر پابندی
ایک مقامی اسرائیلی امریکی سر گرم کارکن جاش فریڈمین کہتے ہیں کہ مجوزہ نصاب یک طرفہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ فلسطینی نقطہ نظر زیادہ تر جبرو استبداد کے بارے میں ہے۔
لیکن اس میں دو ریاستی صورتحال میں رہنے کا ایک اسرائیلی نقطہ نظر بھی ہے جو محفوظ صورتحال نہیں ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر بمباری کی ایک تاریخ ہے ۔ اس کورس میں اس پر بات نہیں کی گئی۔
فریڈمین کی گرل فرینڈ اسٹاچی آئیز مین مڈل اسکول میں پڑھاتی ہیں ۔ وہ اپنے کلاس روم اور خود اپنے گھر میں اپنے نو عمر بیٹوں کو غزہ کی جنگ پر بات کرتے ہوئے سن رہی ہیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ اسرائیل جتنی طاقت سے حملہ آور ہوا میرا بیٹا اس سے اتفاق نہیں کرتا لیکن اس کا یہ خیال ضرور ہے کہ اسرائیل کو اپنی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے ، اس کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اپنے شہریوں کی حفاظت کی ویسی ہی ضرورت ہے جیسی کہ فلسطینیوں کو اپنے شہریوں کی حفاظت درکارہے ۔
امریکن اسلامک ریلشنز سے متعلق گریٹر لاس اینجلس کونسل، اسکول ڈسٹرکٹ پر زور دے رہی ہے کہ وہ کورس کو موجودہ شکل ہی میں شروع کریں۔
بیونا پارک سٹی کمشنر مروت جودہ کہتی ہیں کہ یہ نصاب فلسطینیوں کی جدو جہد کو بہتر طورپر سمجھنےمیں مدد دے گا۔
SEE ALSO: فلوریڈا نے اسکولوں میں جنسی آگہی اور صنفی شناخت کی تعلیم پر پابندی لگا دیوہ کہتی ہیں کہ اس وقت ہر جگہ فلسطینی مخالف ، عرب مخالف اور اسلامو فوبیا بیانیے پھیل رہے ہیں ۔ اور میں تسلیم کرتی ہوں کہ صیہونی مخالف بیانیے بھی موجود ہیں ۔
لیکن وہ ایک اہم فرق کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ، فرق یہ ہے کہ مجھے ہولوکاسٹ کے بارے میں پڑھایا گیا تھا۔ اور میں نے ہمیشہ اپنے یہودی بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں ہمدردی محسوس کی ہے۔
انہوں نے کہا میں نے این فرینک کی ڈائری پڑھی ہے۔ میری کمیونٹی 75 سال تک وحشیانہ قبضے میں مبتلا رہی ہے اور در حقیقیت اس کو درست طور پر تسلیم نہیں کیا گیاہے۔
سانٹا آنا اسکول ڈسٹرکٹ نے مقدمے کے بارے میں وی او اے کے تبصرے کی درخواست کو رد کر دیا ۔
ڈسٹرکٹ نے ا س سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اسرائیلی ۔فلسطینی تنازعے پر کوئی سیاسی موقف نہیں رکھتا لیکن اسے پتہ ہےکہ لوگ اس مسئلے پر مضبوط آراء رکھتے ہیں ۔
بیان میں کہاگیا کہ سانٹا آنا اسکول ڈسٹرکٹ جامع تعلیم کے حوالے سےایک کھلے اور احترام پر مبنی ڈائیلاگ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔