"میں نے ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کو بے نقاب کرکے ظلم کیا، میرے جرم میں یہ بھی شامل کریں۔ ہماری حکومت گرا کر ہمیں ہی ملزم بنا دیا گیا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے جس کی حکومت گری ہو وہی ملزم ہو۔"
یہ الفاظ تھے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے جو انہوں نے جج ابوالحسنات کی طرف سے فردِ جرم سنتے ہی کہے۔
سائفر کیس میں عمران خان کے خلاف فردِ جرم عائد کردی گئی ہے اور اب ان کے خلاف کیس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوگی جس میں اس کیس کے گواہان کو پیش کیا جائے گا۔
ابتدائی طور پر اس کیس میں پانچ گواہان کو پیش کیے جانے کا امکان ہے جب کہ دیگر گواہان کو بعد میں پیش کیا جائے گا۔
سائفر کیس کی سماعت دیکھنے کے لیے ایک بار پھر صرف پانچ صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔
کچھ صحافیوں کی طرف سے ماضی میں سوشل میڈیا پر عمران خان کے بارے میں پرجوش انداز میں بات کرنے پر ان کا داخلہ بند کردیا گیا ہے اور اب صرف ایسے صحافیوں کو جانے کی اجازت دی جارہی ہے جو باہر آ کر سرگوشی کے انداز میں اپنے باقی ساتھیوں کو اندر ہونے والی سماعت کی تفصیل بتاتے ہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہے۔ تحریکِ انصاف کی طرف سے بار بار آواز اٹھانے کے باوجود نہ جج اس پر کوئی حکم دے سکے ہیں اور نہ ہی جیل انتظامیہ کوئی فیصلہ کرسکی ہے۔
سماعت کے لیے اندر جانے والے انہی صحافیوں سے ہم نے آج کی سماعت کا پوچھا جنہوں نے بتایا کہ عمران خان آج سیاہ رنگ کے لانگ کوٹ میں ملبوس تھے اور سماعت کے دوران بیشتر وقت شاہ محمود قریشی کے ساتھ اپنے لیے مختص جگہ پر کھڑے رہے۔
عمران خان کو اگرچہ صحافیوں سے بات کی اجازت نہیں دی جا رہی اور نہ ہی صحافیوں کو عمران خان سے گپ شپ کی اجازت ہے۔ صحافیوں اور عمران خان کے درمیان کا فاصلہ بھی لگ بھگ 30 فٹ سے زائد کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے صحافیوں کو آواز بھی نہیں آتی۔
گزشتہ روز بھی عمران خان نے صحافیوں سے پوچھا تھا کہ آپ کو آواز آ رہی ہے تو وہاں موجود صحافی ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ عمران خان کیا کہہ رہے ہیں جس پر وہاں موجود ایک وکیل نے بتایا کہ خان صاحب آواز کا پوچھ رہے ہیں۔
فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی سے قبل لگ بھگ ایک گھنٹہ پی ٹی آئی کے وکلا نے اس فردِ جرم کی کارروائی کو روکنے پر صرف کیا۔ گزشتہ روز بھی چھ متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں جنہیں کل ہی نمٹا دیا گیا تھا اور بدھ کو بھی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اوپن ٹرائل نہ ہونے اور دیگر درخواست پر بات کی۔
لیکن جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے تمام باتوں کو رد کرتے ہوئے فردِ جرم پڑھنا شروع کی۔
دو صفحات پر مشتمل چارج شیٹ ملزمان کو تین مختلف الزامات کے تحت سنائی گئی۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ عمران خان نے بطورِ وزیر اعظم اور شاہ محمود قریشی نے بطورِ وزیرِ خارجہ سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔
دوسرا نکتہ یہ کہ ملزمان نے 27 مارچ 2022 کو سیکریٹ ڈاکیومینٹ کو عوامی ریلی میں لہرایا اور تیسرا نکتہ یہ کہ ملزمان نے جان بوجھ کر ذاتی مفادات کے لیے سائفر کو استعمال کیا۔
چارج شیٹ میں کہا گیا کہ ملزمان کے غیر قانونی اقدام سے ملکی تشخص، سیکیورٹی اور خارجہ معاملات کو نقصان پہنچا۔
یہ چارج شیٹ جب جج ابوالحسنات پڑھ رہے تھے تو اچانک عمران خان نے کہا کہ جج صاحب اس میں ایک اور فقرہ شامل کردیں۔ "بڑا ظلم کیا جو جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو کو ایکسپوز کیا۔"
اس پر جج ابوالحسنات نے کہا کہ "خان صاحب آپ ایسا نہ کریں۔ غلط بات نہ کریں، یہ عدالت ہے، آپ کا لہجہ مناسب نہیں۔"
اس دوران عمران خان لگاتار بولتے رہے اور ایک بار پھر اپنے پرانے الزامات کو دہراتے ہوئے کہا کہ "جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو کو بچانے کے لیے تمام ڈرامہ ہو رہا ہے، مجھے سزائے موت سے ڈر نہیں لگتا۔"
عمران خان نے کہا کہ سائفر حکومت گرانے کے لیے لکھا گیا جو گرا دی گئی۔ سائفر کے اندر سازش ہے جو چھپائی جارہی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ میڈیا کو بولنے کی اجازت نہیں تو فیئر ٹرائل کیسے ہوسکتا ہے۔
انہی باتوں کے دوران شاہ محمود قریشی نے بھی صحتِ جرم سے انکار کیا اور کہا کہ سینکڑوں کی تعداد میں سائفر دیکھے ہیں لیکن یہ کچھ مختلف سائفر تھا۔
انہوں نے کہا کہ چیزوں کو خفیہ رکھ کر یک طرفہ ٹرائل نہ چلایا جائے۔ دو محبِ وطن شہریوں کو اس مقدمے میں پھنسایا جارہا ہے۔ میں بے گناہ ہوں لیکن مجھے سزا دینا چاہتے ہیں۔
اس پر جج ابوالحسنات نے کہا کہ شاہ صاحب ایسا نہ کریں۔ بیلنس بات کریں۔
اسی شور کے دوران جج ابوالحسنات اپنا آج کا آرڈر اپنے ریڈر کو لکھوانا چاہتے تھے لیکن عمران خان اور شاہ محمود کے لگاتار بولنے کی وجہ سے انہوں نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔
اڈیالہ جیل کے باہر پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے میڈیا سے مختصر بات کی اور فردِ جرم کنفرم کی جس کے بعد صحافی دوستوں نے بھی تصدیق کی۔ لیکن بعد میں پی ٹی آئی کے وکلا نے ایسا کوئی عمل ہونے سے ہی انکار کردیا اور کہا کہ پروسیس مکمل نہیں ہوا لہٰذا فردجرم عائد نہیں ہوئی۔
عمران خان اور ان کے وکلا فردِ جرم سے انکار کریں لیکن بظاہر یہ فردِ جرم پڑھی جانے کے بعد عائد ہو چکی ہے اور اب کل سے باقاعدہ گواہان عدالت میں پیش ہوں گے اور ان پر جرح بھی کی جاسکے گی۔
پی ٹی آئی وکلا کا کہنا ہے کہ جج عجلت میں کیس چلا رہے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو کہا تھا کہ اگر عدالت نے تمام چیزوں کو نہیں دیکھنا تو لکھا لکھایا فیصلہ لے آئیں۔
فورم