اردن میں ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک،بائیڈن جوابی کارروائی کے لیے پرعزم

امریکی صدر جو بائیڈن 28 جنوری 2024 کو کولمبیا، جنوبی کیرولائنا میں سینٹ جان بیپٹسٹ چرچ میں بات کر رہے ہیں. اے ایف پی

صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ اردن کے اندر اس ڈرون حملے کے بعد جوابی کارراوئی کرے گا جس میں تین امریکی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ برسر اقتدار ڈیموکریٹس اورحزب اختلاف کے ریپلکنز دونوں نے جوابی کاروائی پر زوردیا ہے۔

صدر نے اپنے پہلے ردعمل میں ہی گزشتہ رات ہونے والے اس حملے کا ذمہ دار ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں کو قرار دیا تھا۔

اسرائیل اور حماس کی غزہ میں جاری جنگ کے دوران مشرق وسطی میں ملیشیا گروپوں نے گزشتہ کئی ماہ میں امریکی فورسز پر حملے کیے لیکن ایسا پہلی بار ہے کہ کسی حملے میں امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں ۔

صدر جو بائیڈن نے جو ریاست ساوتھ کیرولائنا جا رہے تھے، ایک چرچ پہنچنے پر اس واقعہ پر قوم سے ایک لمحے کی خاموشی اختیار کرنے کا کہا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات مشرق وسطی میں امریکہ لیے ایک مشکل گھڑی تھی۔" ہمھیں اس کا ہرصورت جواب دینا چاہیے۔"

شمال مشرقی اردن میں ٹاور۔ 22اے پی فوٹو

دو امریکی اہلکاروں نے اردن میں اس فوجی تنصیب کی ٹاور 22 کے نام سے شناخت کی ہے۔

ا ایک امریکی اہلکار نے بتایا ہے کہ اردن میں کیے جانے والے ڈرون کےحملے سے زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد کم از کم 34 ہو گئی ہے۔

ایک اور اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس واقعہ میں ایک بڑے ڈرون سے ایک اڈے پر حملہ کیا گیا۔

اردن میں ٹاور 22 کے نام سے شناخت کیا جانے والا اڈہ شام کی سرحد کے ساتھ ہے اور اس کا استعمال زیادہ تر ایسے فوجی کرتے ہیں جو اردن کی افواج کے لیے مشورے اور معاونت کے مشن میں شامل ہیں

صدر جو بائیڈن نے اس حملے کے ردعمل میں ایک تحریری بیان میں کہا، امریکہ "اس حملے کے ذمہ داروں کو جواب دے گا اور اس کے لیے وقت اور طریقہ کار کا تعین ہم خود کریں گے۔"

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے ردعمل میں کہا ہے، " ہم امریکہ، اپنے فوجی دستوں اور اپنے مفادات کے دفاع کے لیے تمام اقدامات اٹھائیں گے۔"

SEE ALSO: ایران جہازوں پر حوثی حملوں میں براہ راست ملوث ہے، وائس ایڈمرل کوپر

امریکی عہدیدار اس نتیجے پر پہنچے تھےکہ اس حملے میں ایران کے متعدد حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں میں سے ایک اس حملے کا ذمہ دار ہے۔

"عراق میں اسلامی مزاحمت" نامی گروپ کا ذمہ داری کا دعویٰ

اسی اثنا میں امریکی اخبار،واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، "عراق میں اسلامی مزاحمت" نامی عسکریت پسند گروہوں کے ایک اتحاد نے حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا ہے ہے جس میں کتائب حزب اللہ، نجابہ اور دیگر ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند شامل ہیں۔

SEE ALSO: کیا عراق امریکی اہداف پر ملیشیاؤں کے حملے روکنے میں ناکام رہا ہے؟

گروپ کے ایک عہدہ دار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، "جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے، اگر امریکہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھتا ہے، تو (لڑائی) میں اضافہ ہوگا۔ خطے میں تمام امریکی مفادات جائز اہداف ہیں اور ہمیں امریکی جوابی (کارروائیوں کی) دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں اور شہادت ہمارا انعام ہے۔"

دونوں سیاسی پارٹیوں کا ردعمل

امریکی کانگریس میں برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکہ اس حملے کا مناسب جواب دے گا۔

سینیٹ میں مسلح أفواجکی کمیٹی کے چیئرمین جیک ریڈ نے کہا کہ وہ پر اعتماد ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اس حملے کا جواب سوچی سمجھی اور مناسب کارروائی سے دیگی۔

ادھر کانگرس کے ریپبلیکنز کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کا طریقہ کار خطے میں امریکہ کے دشمنوں کو حملوں سے باز رکھنے میں ناکام رہا ہے۔

SEE ALSO: اسرائیل فلسطینی تنازعہ، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی پالیسی

ایوان کی خارجہ أمور کی کمیٹی کے چیرمین،ریپبلکن مائیکل مکال نے ایک بیان میں کہا کہ اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لیےہمیں اپنی مشرق وسطی کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر لنزی گراہم نے مزید سخت ردعمل کی بات کرتے ہوئےبائیڈن انتظامیہ پر زور دیا کہ کہ وہ صرف فوجیوں کی ہلاکت کے خلاف جواب کاروائی میں ہی نہیں، بلکہ آئندہ ایس جارحیت کو روکنے کے لیے، ایران کے اندر اہم اہداف کو نشانہ بنائے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے یورپ میں مقیم سرگرم کارکن اور دیرالزور 24 میڈیا چینل کے سربراہ عمر أبو لائلہ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ مشرقی شام میں ایران کے حمایت یافتہ جنگجووں نے امریکی فضائی حملوں کے خدشے کے پیش نظر اپنے ٹھکانے خالی کرنا شروع کر دیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مایادین اور بوکامال ان جنگجوؤں کے مضبوط مراکز ہیں۔

(اس خبر میں شامل بعض معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)