رسائی کے لنکس

اسرائیل فلسطینی تنازعہ، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی پالیسی


اسرائیل لبنان سرحد پر اسرائیلی ٹینک تعینات ہیں۔فوٹو اے پی
اسرائیل لبنان سرحد پر اسرائیلی ٹینک تعینات ہیں۔فوٹو اے پی

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان حالیہ انتہائی ہلاکت خیز جنگ کا سبب عرب رہنماؤں کے خیال میں بائیڈن انتظامیہ کی وہ پالیسی ہے جس نے امریکہ کو ایک وسیع تر اسرائیل عرب امن معاہدے کی جانب پیش رفت کے لیے دباؤ ڈالنے سے پیچھے ہٹا دیا۔

بائیڈن انتظامیہ کے عہدے داروں نے اس سے قبل یہ واضح کر دیا تھا کہ اس کے بجائے اب ان کی توجہ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے میں فلسطینیوں کے لیے حالات میں کچھ بہتری لانے پر مرکوز ہو گی۔
عرب خطے میں صدر جو بائیڈن نے اس امید پر اپنی کوششیں مزید عرب ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ الگ الگ معاہدے کرنے پر مرکوز کر دی ہیں کہ اس سے خطے میں استحکام آئے گا ۔

اس سے قبل عرب اسرائیل جنگ نے نصف صد ی تک امریکی رہنماؤں کو علاقائی ترجیح کے طور پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک بڑے معاہدے پر مرکوز رکھاتھا۔ْْْ

تجزیہ کاروں کے خیال میں اسرائیل فلسطین طویل مدتی تنازع کو پس پشت ڈالنے کےخطرات 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کی شکل میں سامنے آئے اور اسرائیل نے اس کا جواب شدید بمباری سے دیا۔
امریکہ کے عرب شراکت دار ، جو اس صورت حال پر برہم ہیں، سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینی تشدد کا اس سطح پر آنا امریکہ کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
عرب رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں 75 سال جاری کشیدگی کے حل کے لیے صدر رچرڈ نکسن سے لے کر بعد میں آنے والے صدور اور انتظامیہ کوششیں کرتی رہی ہے جب کہ صدر بائیڈن نے اس سلسلے میں بطور خاص کچھ نہیں کیا۔

مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے، جو مشرقی وسطی کے دورے پر تھے، کہا کہ اسرائیل حماس جنگ سے پورے مشرق وسطیٰ کا استحکام خطرے میں پڑ گیا ہے۔

انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائی غزہ کی 23 لاکھ آبادی کو مصر کی جانب دھکیل دے گی جس سے مصر کے لیے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ السیسی کا یہ بھی کہنا تھاکہ امن مذاکرات کے لیے نیتن یاہو کی حکومت اور فلسطینیوں پر بین الاقوامی دباؤ اب نہ ہونے کے برابر ہے۔

اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1300 کے لگ بھگ اسرائیلی ہلاک اور 200 کے قریب لاپتہ ہوئے، اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے اور غزہ انتظامیہ کے مطابق 10 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہیں۔

شدید فضائی حملے بدستور جاری ہیں جس سے جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے علاقے میں اپنے دو بحری جنگی بیڑے تعینات کر دیے ہیں تاکہ بیرونی مداخلت کے امکان کو گھٹایا جا سکے۔

جنگ شروع ہونے کے بعد سے امریکی انتظامیہ نے خطے میں اپنی سفارت کاری کی کوششوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود سمیت سعودی اور خلیجی حکمرانوں سےملاقاتیں کر چکے ہیں۔

اسرائیل نے غزہ کے لیےبجلی، ایندھن خوراک اور پانی کی فراہمی کے راستے روک دیے ہیں اور دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو غزہ سے جنوبی حصے کی طرف جانے کا حکم دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کا کوئی معاہدہ طے کرانے کی بجائے سابق صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں امن سازی کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار کیا جس کا مقصد عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرانا تھا۔

ٹرمپ کے دور میں ابراہام اکارڈ کے تحت متحدہ امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدوں پر دستخط کیے ۔

ٹرمپ کے بعد صدر بائیڈن نے بھی یہی راستہ اختیار کیا اور عرب خطے کے سب سے طاقت ور ملک سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے تیزی سے کام شروع کیا۔

7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور اسرائیل کے غزہ پر شدید ردعمل نے اس پیش رفت کو روک دیا ہے۔مزید براں اسرائیل کے دفاع کے لیے بائیڈن انتظامیہ کے بیانات عرب خطے میں تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔

یہ رپورٹ ایسو سی ایٹڈ پریس کی معلومات پر مبنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG