طالبان نے کہا ہے کہ وسط اگست میں افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک داعش سے منسلک مقامی دھڑوں کے 600 کے قریب ارکان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جو دولت اسلامیہ خراسان صوبے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
افغانستان کی انٹیلیجنس ڈائرکٹوریٹ کے ترجمان نے بدھ کے روز کابل میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ گرفتار شدگان میں داعش خراسان کے کئی اعلیٰ کمانڈرز بھی شامل ہیں۔ طالبان حکومت کے خفیہ ادارے میں بطور ترجمان خلیل ہمراز نو وارد ہیں۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ داعش سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کو سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ جیل میں رکھا گیا ہے۔
ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ اس گروپ کے خلاف جاری کارروائیوں میں تقریباً 40 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ہمراز نے سابقہ افغان حکومت پر الزام لگایا کہ اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے ذرا پہلے انہوں نے داعش خراسان کے تقریباً 1800 عسکریت پسندوں اور لاتعداد مجرمان کو قیدخانوں سے رہا کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ رہا شدہ قیدی حالیہ کار بم دھماکوں اور افغانستان کے مختلف حصّوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تھے۔
داعش خراسان نے ملک میں ہونے والے درجنوں دہشت گرد حملوں کی ذمّہ داری قبول کی ہے، جن میں خود کش بمباری کے واقعات بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں سینکڑوں افغان شہری اور طالبان فورسز کے اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔
داعش خراسان کے خلاف اپنی کامیابیوں کی ایک تفصیلی فہرست بھی طالبان نے جاری کی ہے، جس کا مقصد اس تنقید کو رد کرنا ہے کہ طالبان بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے اس ہفتے کہا تھا کہ جنوبی ایشیائی ملک میں بڑھتی ہوئی داعش خراسان اور القاعدہ کی موجودگی واشنگٹن کے لیے باعث تشویش ہے۔ پیر کو امریکی نمائندے نے برسلز میں کہا کہ طالبان دہشت گرد گروپ کے خلاف انتہائی سخت کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہم داعش خراسان کے زہریلے حملوں کی مذمت کرتے ہیں، جن کی وجہ سے حالیہ ہفتوں میں سینکڑوں معصوم افغانیوں کی جانیں گئیں۔ ہم داعش خراسان کی ان کارروائیوں پر متفکر ہیں اور چاہتے ہیں کہ طالبان ان کے خلاف کامیاب ہوں''۔
امریکی حکام انتباہ کر چکے ہیں کہ داعش خراسان میں یہ صلاحیت ہے کہ ایک سال سے کم عرصے میں وہ افغانستان سے باہر بھی دہشت گرد کارروائیاں کر سکتے ہیں، جبکہ القاعدہ کو ایسا کرنے میں ایک سے دو سال لگ سکتے ہیں۔ امریکی نمائندے ویسٹ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں القاعدہ کی افغانستان میں موجودگی بارے میں سخت تشویش ہے اور طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں ہم اس مسئلے کو اٹھاتے رہتے ہیں۔