واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار، ڈاکٹر وائن بام نے کہا ہے کہ انٹیلی جینس کی اطلاعات کے مطابق داعش خراسان اور القاعدہ دونوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ دوبارہ طاقت حاصل کرلیں۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ ان دونوں تنظیموں کو قابو میں رکھنے کے لئے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہاں ایک تضاد یہ ہے کہ داعش خراسان کو قابو میں رکھنے کے لئے طالبان وہی سوچ رکھتے ہیں جو امریکہ کی ہے، ہر چند کہ وہ یہ کام اپنے طور پر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن القاعدہ کے سلسلے میں ان کی سوچ امریکہ سے بالکل مختلف ہے۔ اسلئے انسداد دہشت گردی کا کوئی موثر پروگرام تیار کرنا مشکل ہے
ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ انٹیلیجینس کی رپورٹوں کے مطابق داعش-خراسان کو یورپ اور ممکنہ طور پر امریکہ کے لئے خطرہ بننے میں صرف چھہ ماہ لگیں گے۔ جبکہ القاعدہ کو ایک یا دو سال لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے افغانستان میں جہاں طالبان اس اعتبار سے پورا کنٹرول نہ رکھتے ہوں جیسا کہ داعش-خراسان کے حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف چھاپہ مار جنگ بھی چھیڑ سکتے ہیں۔ اس ماحول میں طالبان خود اپنی ہی صفوں سے اپنے دشمن پیدا کر سکتے ہیں۔ جو طالبان قیادت کی پالیسیوں سے متفق نہ ہوں اور وہاں سے نکل کر داعیش خراسان کی صفوں میں شامل ہو کر انہیں مزید مضبوط کردیں۔ اسلئے یہ خود طالبان قیادت کا بھی امتحان ہے کہ وہ کس طرح اندرونی حالات پر قابو رکھتے ہوئے اپنے اس وعدے کو پورا کر کے دنیا کا اعتماد حاصل کریں کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی پر حملے کے لئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
طاہر خان پاکستان کے ایک صحافی اور تجزیہ کار ہیں اور افغان امور پر نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ داعش -خراسان نے جتنے بڑے بڑے حملے طالبان کے آنے کے بعد کیے ہیں وہ طالبان کے ان دعوں کی نفی کرتے ہیں کہ داعش-خراسان کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور ایک خطرناک بات یہ ہوئی ہے کہ داعش پہلے صرف مشرقی صوبے ننگر ہار تک محدود ہوتی تھی لیکن اب جنوبی علاقوں تک اور کابل کے اندر تک انہوں نے وسعت حاصل کر لی ہے اور ان علاقوں میں بھی اب حملے کر رہے ہیں۔ اور یقیناً اس بارے میں امریکہ کے خدشات اور تشویش بجا ہے۔ اور امریکہ ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی گزشتہ برسوں کی رپورٹوں میں بھی اس حوالے سے بار بار خطرات کا اظہار کیا جاچکا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ خود طالبان کے لئے داعش خراسان ایک بہت بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اور اب طالبان ان کے لئے ایک آسان ہدف ہیں جو پہاڑوں میں چھپے ہوئے نہیں ہیں بلکہ سڑکوں پر ہیں اور شہروں میں انتظامی امور میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اور داعش ان سے ماضی کی ان کارروائیوں کا بدلہ لینے کے لئے مستعد ہے جو وہ اس کے خلاف کر چکے ہیں۔
طاہر خان نے کہا کہ جہاں تک القاعدہ کا تعلق ہے وہ نہیں سمجھتے کہ وہ کوئی بڑا خطرہ ہیں۔ کیونکہ اوّل تو اب وہ بہت کم ہیں۔ اور وہ ایک غیر موثر تنظیم ہے دوسرے طالبان نے انکے حوالے سے جو ضمانتیں دی ہیں انکی بنیاد پر وہ کسی بڑی سرگرمی میں ملوث نہیں ہو رہے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے طالبان بیرونی امداد کی پیشکشوں کو قبول کرنے سے کیوں گریزاں ہیں۔ طاہر خان نے کہا کہ طالبان کے لئے یہ ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے۔ کیونکہ بعض حلقوں کی اس سوچ کے برعکس کہ یہ طالبان کسی معتدل سوچ کے حامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انکی ذہنیت بدستور انتہا پسندانہ ہے اور اندر سے قیادت بڑی شدت پسند ہے اور اگر انہوں نے اندرون ملک کارروائیوں کے لئے باہر سے مدد لی تو ان کے درمیان آپس میں تفرقہ پڑجائے گا۔
ڈاکٹر حسین یاسا ایک افغان صحافی اور رائٹر ہیں۔ جرمنی میں مقیم ہیں، وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کی ان دہشت گرد گروپوں کو کنٹرول کرنے کیجو صلاحیت متوقع تھی وہ دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔ اور داعش خراسان کے بڑے بڑے حملوں کے علاوہ افغانستان کے کئ علاقوں میں جیسے بدخشاں اور بلخ کے بعض علاقے سمنگان، ارزگان اور ایران کی سرحدو ں سے ملے ہوئے علاقے ہیں ،ان میں ان عالمی دہشت گرد تنظیموں کی جو سرگرمیاں ہیں انکے تناظر میں امریکی ایلچی تھامس ویسٹ نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ درست بھی ہے اور منطقی بھی ہے۔ اور صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے لئے ایک بار پھر ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ جس سے دنیا کو نمٹنا ہو گا۔