اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس سال افغانستان میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً گیارہ لاکھ بچّے غذا کی شدید کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہسپتالوں کے وارڈز بھوکے اور نحیف و نزار بچّوں سے بھر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ اوردیگرامدادی ایجنسیاں قحط کے شکار ملک میں ہنگامی بنیادوں پر امداد دے رہی ہیں تاکہ بھوکے عوام کو مناسب خوراک مل سکے۔ اس ماہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امدادی کوششوں کے باوجود غربت اور بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف یوکرین کی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پرخوراک کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچّوں سمیت لاکھوں افغانی عوام کو خوراک کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسیف کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ یہ ہے کہ2018 کے مقابلے میں شدید کم خوراکی کے شکاربچّوں کی تعداد دوگنی ہوسکتی ہے جبکہ پچھلے سال یہ تعداد دس لاکھ کے قریب تھی۔
یونیسیف کے مطابق کم خوراکی کی اس شدید حالت میں بچّوں کا وزن کم ہوجاتا ہے،ان کی قوت مدافعت اتنی کمزور پڑجاتی ہے کہ وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اس قدرنحیف ہوجاتے ہیں کہ خوراک اور دوا کوبھی ہضم نہیں کر سکتے۔
ہسپتالوں میں داخل ہونے والےایسے لاغر بچّوں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ مارچ 2020 میں ان کی تعداد16 ہزار تھی جبکہ مارچ 2022 میں ان کی تعداد 28 ہزار ہو گئی۔ پچھلے ہفتے افغانستان میں یونیسیف کے نمائندے نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا کہ عشروں کی جنگ کے بعد اس سال افغانستان کو بد ترین خشک سالی کا سامنا ہے ۔ پچھلے سال اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بہت سی بین الاقوامی اور ترقیاتی ایجینسیوں نے اپنے امدادی پروگرام منسوخ کر دیے اور بین الاقوامی پابندیوں نے ملک کی معیشت تباہ کردی ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں سنگین انسانی بحران، بین الاقوامی عطیہ دہندگان کا دو ارب 40 کروڑ ڈالر امداد کا وعدہ
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال کے آخرتک آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی غربت کی وجہ سے حاملہ خواتین کو مناسب غذا نہیں مل پاتی اور بچّے پیدا ہونے سے قبل ہی کم خوراکی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، جن میں بہت سی جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔
افغانستان میں یونیسیف کے غذائیت کے پروگرام کی سربراہ میلینی گیلون کا کہنا ہے کہ ایجنسی کے سالانہ تخمینے کی بنیاد پراس سال شدیدغذائی کمی کے شکارہونے والے بچّوں کی تعداد کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ جائزہ پچھلے موسم خزاں میں افغانستان کے حالات کے تجزیے پر مبنی ہے۔انہوں نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ ہرسال کم خوراکی سے منسلک عوامل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اورصورت حال بگڑتی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یونیسیف نے پورے ملک میں ایک ہزار کے قریب صحت کے مراکز قائم کیے ہیں، جہاں ایسے بچّوں کا علاج اور دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے یہ ہنگامی امداد زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکتی ۔ اس لیے بیرونی عوامل کو بہتر کیے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)