طالبان حکومت سے درپیش خدشات کے باوجود بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے افغانستان کوانسانی بحران سےنکالنے میں مدد کے لیے 2.4 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیٹرس نے جمعرات کو ایک ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''فوری اقدام کیے بغیر ہم افغانستان میں فاقہ کشی اور غذائیت کی شدید کمی کے بحران سے نہیں نمٹ سکتے''۔ انھوں نے کہا کہ پہلے ہی لوگ اپنے بچے اور جسمانی اعضا تک بیچنے پر مجبور ہیں، تاکہ اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔ جب کہ افغانستان کی معیشت بھی تباہ ہوچکی ہے۔
کئی دہائیوں سے افغانستان میں لڑائی جاری رہی ہے جس کے اثرات سے معاشرہ باہر نہیں نکل پایا، پھر کئی بار خشک سالی سے واسطہ رہا اور اس کے بعد کووڈ 19 کی وبا نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ افغان آبادی کو خوراک، پناہ ، طبی دیکھ بھال اور دیگر اشیائے ضروری فراہم کرنے کے لیے عالمی ادارے نے 4.4 ارب ڈالر کی اپیل کی ہے، جو کہ مالیت کے اعتبار سے امداد کی سب سے بڑی اپیل ہے۔
امداد دہندگان میں سب سے بڑا عطیہ دہندہ برطانیہ ہے جس نے 37 کروڑ 40 لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے؛ جس کے بعد امریکہ نے 20 کروڑ 40 لاکھ کی نئی اعانت کا اعلان کیا؛ جرمنی اور جاپان نے بالترتیب 21 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور 10 کروڑ 90 لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ نئی امداد کی کوشش میں کل 41 عطیہ دہندگان شامل ہوں گے۔
دو کروڑ 40 لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو، جو آبادی کا 60 فی صد بنتا ہے، انسانی ہمدردی کی امداد درکار ہے، جب کہ 90 لاکھ آبادی کو قحط سالی کے خدشات لاحق ہیں۔ عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ یہ انسانی ہمدردی کا دنیا کا شدید ترین بحران ہے۔
اس ہفتے، انسانی بحران سے نبردآزما ہونے سے متعلق اقوام متحدہ کے شعبے کے سربراہ، مارٹن گرفتھس نے دارالحکومت کابل اور وسطی افغانستان کے بامیان کے علاقے کا مختصر دورہ کیا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں آمد کے بعد، گرفتھس نے بتایا کہ ''ان تین دنوں کے دوران میں نے انسانی تکالیف اور اذیت کا مشاہدہ کیا، جو ناقابل بیان ہے''۔ قطر اقوام متحدہ، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر امداد سے متعلق اجلاس کے شریک میزبان ہیں۔
گرفتھس نے بچّوں کے ایک اسپتال کا دورہ کیا، اور انھوں نے ایسے نحیف اور لاغر بچے دیکھے جن میں چیخنے تک کی سکت باقی نہیں تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ''کابل میں میں نے اندرا گاندھی اسپتال کا دورہ کیا جہاں میں نے غذائیت سے محروم نوزائیدہ اور چھوٹے بچے دیکھے جو اکھڑی ہوئی سانسیں لے رہے تھے اور پرانے جھولوں اور انکیوبیٹرز میں پڑے تھے''۔ انھوں نے کہا کہ'' نوزائیدہ اطفال انتہائی نحیف اور کم وزن تھے۔ ذہن میں رکھیں کہ میں کابل کے پرانے محلے کی بات کر رہا ہوں نہ کہ کسی گاؤں کی یا ملک کے کسی غریب علاقے کی حالت بیان کر رہا ہوں''۔
گرفتھس نے کہا کہ ''بحران سے نمٹنے کے کارکن خوراک کی شدید کمی دور کرنےاور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کے بس میں یہ نہیں رہا کہ وہ معاشرے کو مکمل بربادی سے بچا سکیں ''۔
اگست میں جب سے طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے، افغانستان کی معیشت برباد ہو چکی ہے۔
بین الاقوامی امداد میں ملنے والے اربوں ڈالر کے رکنے، جن کے سہارے معیشت کا پہیہ چل رہا تھا اور افغان مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر کے بیرونی مالی ذخائر منجمد کیے جانے کے بعد مالیاتی بحران بدترین ہو چکا ہے۔
مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے عطیہ دہندگان کو طالبان کے بارے میں بدگمانیاں ہیں کہ وہ میسر آنے والی رقوم کس طرح خرچ کریں گے۔
گزشتہ ہفتے طالبان نے 23 مارچ سے لڑکیوں کے ثانوی تعلیم کے اسکول کھولنے کا وعدہ کیا تھا جس سے وہ منحرف ہوگئے ہیں، جس کے بعد ان کے متعلق بدگمانی بڑھ چکی ہے، یوں لگتا ہے جیسے 1996ء سے 2001ء تک کا ان کا دور واپس آ چکا ہے جب افغانستان ان کے حوالے تھا، ایسا لگتا ہے کہ انسانی حقوق سے کے بارے میں انھوں نے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا۔
امریکی سفیر لِنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول نہ کھولنے کا فیصلہ ''ناقابل معافی'' ہے۔
ایک ویڈیو پیغام میں گرین فیلڈ نے اجلاس کو بتایا کہ ''یہ ممکن نہیں کہ دلی افسوس کا اظہار نہ کیا جائے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ افغانستان کی نوجوان بچیوں کی آنکھوں میں آنسو ہیں کہ انھیں بالآخر کمرہ تعلیم سے نکال دیا جائے گا''۔