امریکہ میں صدر بائیڈن کے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور سے نمٹنے کی حکمت عملی کے بارے میں اگرچہ بڑے پیمانے پر لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم دو تہائی امریکی عوام کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ کی طویل ترین جنگ اتنی سود مند تھی کہ اتنی دیر تک لڑی جاتی۔
اس کا اندازہ ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آر سی، سینٹر فار پبلک افئیرز ریسرچ کے رائے عامہ کے ایک جائزے سے ہوا ہے۔
جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 47% امریکیوں نے داخلی امور جب کہ52% نے بین الاقوامی امور سے نمٹنے میں صدر بائیڈن کی اہلیت کو سراہا۔
رائے عامہ کا یہ جائزہ اس سال 12 سے 16اگست کے دوران مرتب کیا گیا۔ جب افغانستان کی 20 سالہ جنگ ختم ہوئی اور طالبان اقتدار پر دوبارہ قابض ہو گئے۔ اس میں 1729 لوگوں کی رائے لی گئی اور غلطی کی شرح 3.2% بیان کی گئی ہے۔
SEE ALSO: امریکی شہریوں کا بحفاظت انخلا یقینی بنانے کے لئے طالبان سے بات چیت جاری ہے: لائیڈ آسٹنطالبان کی پیش قدمی کی رفتار سے لاعلم رہنے اور افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران سے نمٹنے کی تیاری کے عمل میں خامیوں کے باعث انہیں واشنگٹن میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
صدر بائیڈن افغانستان سے انخلاء کے اپنے فیصلے پر سختی سے قائم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ جنگ غیر معینہ عرصے تک جاری رہنے نہیں دینا چاہتے تھے ۔
کنساس کے شہر ٹوپیکا کے 62سالہ ڈیموکریٹ مارک سول ان لوگوں میں سے ہیں جو صدر سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ اس قابل نہیں تھی کہ مزید امریکی جانیں اس کی نذر کی جاتیں۔ 20 سال بعد آپ کو الگ ہونا ہی تھا۔
بعض لوگ جنگ کے مخالف ہونے کے باوجود، افغانستان سے آنے والے انتہائی افسوس ناک مناظردیکھنے کے بعد اس سے اختلاف کرتے نظر آئے۔
ایک منظر وہ بھی تھا جب لوگ افغانستان سے نکلنے کے لئے امریکہ کے فوجی طیارے کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے اور کچھ اس سے چمٹ گئے تھے۔
رائے عامہ کے اس جائزے میں دو تہائی لوگوں کا خیال ہے کہ عراق کی جنگ بھی ایک غلطی تھی۔ تاہم یہ کہنے والوں میں کہ دونوں ملکوں میں جنگ سود مند تھی، ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکنز کی تعداد زیادہ رہی۔
پیبلو، کولوراڈو کی 62 سالہ ڈیبورا فلکرسن کا خیال ہے کہ دانش مندی ہوتی اگر امریکہ افغانستان میں موجود رہتا اور حالات کو زیادہ غیر جانبدار اور محفوظ رکھتا، نہ صرف اپنے لوگوں کے لئے بلکہ وہاں کے لوگوں کے لئے بھی۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ قدامت پسند ہیں اور ان کی نظرافغانستان سے زیادہ اپنے معاشرتی مسائل اور ضروریاتِ زندگی پر رہتی ہے۔ اور جن چیزوں پر ان کا بس نہیں ہے وہ ایک مسیحی کی حیثیت سے ان کے لئے صرف دعا کر سکتی ہیں۔
سروے میں شامل لوگوں کی نصف تعداد کا کہنا تھا کہ انہیں بیرونِ ملک سے امریکہ پر کسی انتہا پسند گروپ کے دہشت گرد حملے کے خطرے سے متعلق سخت تشویش ہے۔ ایک تہائی افراد نے قدرے کم تشویش کا اظہار کیا جب کہ دس میں سے صرف ایک نے کہا کہ انہیں کوئی تشویش نہیں ہے۔
امریکہ پر 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے تقریباً 20سال بعد امریکیوں کی زیادہ تعداد یہ کہنے لگی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب قومی سلامتی کو خطرات اندرونِ ملک سے زیادہ ہیں۔
ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز یکساں طور پر سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو بیرونِ ملک قائم انتہا پسند گروپوں سے خطرہ زیادہ ہے جب کہ ریپبلکنز کی نسبت ڈیموکریٹس کی زیادہ تعداد نے اندرونِ ملک دہشت گردی کو بڑا خطرہ قراردیا ہے۔