امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ ترکی کے ساتھ تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے البتہ باہمی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے مؤثر راستے تلاش کرنا ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق اتوار کو اٹلی کے شہر روم میں جی 20 ممالک کے اجلاس کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوان نے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان انسانی حقوق کے معاملے پر سفارتی تناؤ دیکھنے میں آیا تھا اور ترک صدر نے امریکی سفیر سمیت 10 ممالک کے سفرا کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینے کا حکم دیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہل کار نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے افغانستان، شام، لیبیا، آب و ہوا میں تبدیلیوں اور انسانی حقوق کے علاوہ ترکی کی امریکی ایف 16 لڑاکا طیاروں کو خریدنے کی درخواست پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
SEE ALSO: دس سفرا کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دینے کی ایردوان کی دھمکی، کیا یہ علامتی اقدام ہے؟ترکی کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے بارے میں صدر بائیڈن نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں ایک متعین طریقہ کار سے گزر کر ہی اس معاملے پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ 2019 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایف 35 پروگرام سے ترکی کو اس لیے خارج کر دیا تھا کہ ترکی نے روس سے S-400 دفاعی نظام خریدنے کا سودا کر لیا تھا۔
البتہ اب ترکی امریکہ کی لاک ہیڈ مارٹن کمپنی سے 40 ایف 16 طیارے اور اپنی فضائیہ کے تقریباً 80 لڑاکا طیاروں کو جدید بنانے کی کٹس خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکی قانون ساز اس سودے کے خلاف ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ترکی امریکہ کے ساتھ اس کے مخالفین کی طرح کا برتاؤ رکھے ہوئے ہے۔
سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے یورپ، روس اور یورایشیا پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر راشیل ایلی ہس کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات اس لیے اہم تھی کہ بائیڈن کا ترکی کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ بطور نیٹو اتحادی ترکی کا موجودہ طرزِ عمل ناقابل قبول ہے۔
ان کے بقول ایک شراکت کار کے طور پر توقع کی جاتی ہے کہ ترکی مختلف سیکیورٹی معاملات کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ اسے نیٹو کے ایک رکن ملک کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔
ایلی ہس کا مزید کہنا تھا کہ نیٹو کے دونوں رکن ملکوں کے درمیان انسانی حقوق کے سلسلے میں واضح اختلافات موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن نے بطور صدارتی امیدوار ایردوان کے 'آمرانہ' طرزِ حکومت پر تنقید کی تھی۔ لیکن اب وہ ترکی کے ساتھ تعلقات کو بہتری کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔
راشیل ایلی ہس کہتی ہیں کہ صدر ایردوان بھی اندرون ملک سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ ترکی کی تنزلی کا شکار معیشت نے ان کی حکومت کو خاصا غیر مقبول بنا دیا ہے، اس لیے دونوں سربراہان نے مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ دوسری ملاقات ہے۔ اس سے قبل پہلی ملاقات جون میں برسلز میں ہوئی تھی۔ اس وقت یہ نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے تھے۔