امریکی سپریم کورٹ میں بدھ کے روز ریاست مسی سپی میں 2018ء میں متعارف کروائے گئے اسقاط حمل کے قانون کے حوالے سے 'ڈوبز بمقابلہ جیکسن وومنز ہیلتھ ادارے' کے مقدمے پر بحث ہوئی۔ اس دوران اسی موضوع پر ماضی کے دو اہم ترین مقدموں کے فیصلے بھی مستقل زیر بحث رہے۔
اسقاط حمل کے موضوع پر امریکی عوام کی طرح سپریم کورٹ کے ججز کا پینل بھی شدید منقسم ہے۔ تاہم، توقع کی جارہی ہے کہ ممکنہ طور پر تین ججز پر چھ کی اکثریت رکھنے والے قدامت پسند ججز اپنا فیصلہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
یاد رہے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس موضوع پر دو ٹوک موقف رکھتے تھے اور سپریم کورٹ کے موجودہ ججز میں تین انہی کے نامزد کردہ ہیں۔ ایک انٹرویو میں سابق صدر کہہ چکے ہیں کہ وہ خود بھی "پرو لائف" ہیں اور ایسے ہے ججز بھی سپریم کورٹ میں تعینات ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسقاط حمل کے حامی اور بائیں بازو کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ نہ صرف اس کیس کا فیصلہ ریاست مسی سپی کے حق میں آئے گا بلکہ قدامت پسند ججز کی اکثریت 1973 کے تاریخی کیس 'رو بقابلہ ویڈ' کیس کے فیصلے کو ہی کالعدم قرار دے دیں گے۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اسقاط حمل امریکی عورتوں کا آئینی حق ہے۔
اس کے بعد، ایک اور کیس 'پلینڈ پیرنٹ ہڈ بقابلہ کیسی' کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کی اجازت کو 'فیٹل وائبلٹی' سے مشروط کیا تھا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اسقاط حمل تب تک ممکن ہے جب تک رحم مادر میں موجود بچہ رحم سے باہر بھی سانس لینے کے قابل نہ ہو جائے۔ ماہرین صحت کے مطابق ایسا 23 یا 24 ہفتے تک کے حمل پر ممکن ہو سکتا ہے۔
اگر 'رو بمقابلہ ویڈ' کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا تو امریکی ریاستیں اسقاط حمل پر نئے قوانین متعارف کرانے میں آزاد ہونگی اور خواتین سے ان کی یہ آزادی چھن جائے گی۔ کئی ریاستیں پہلے ہی سخت قوانین پاس کر چکی ہیں مگر یہ کہ ان پر اطلاق کورٹ فیصلوں کہ وجہ سے رکا ہوا ہے۔
بدھ کے روز بھی سپریم کورٹ کے باہر پرو لائف (زندگی کے حامی) اور پرو ابارشن (اسقاط حمل کے حامی) کارکنان اپنے اپنے نظریے کی حمایت میں نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ حامیوں اور مخالفین نے پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر 'اس کا جسم، اس کی مرضی' اور 'خدا ناحق خون بہانے والوں سے نفرت کرتا ہے' جیسے نعرے تحریر تھے۔
SEE ALSO: کیا امریکہ میں اسقاط حمل کی آزادی خطرے میں ہے؟یہ ماحول صرف عدالت کے باہر ہی نہیں تھا عدالت کے اندر بھی دو گھنٹے تک گرما گرم بحث اور دلائل کا سلسلہ جاری رہا۔
کس جج نے کیا کہا؟
قدامت پسند ججز:
چیف جسٹس جان رابرٹس نے بحث کے دوران یہ نقطہ اٹھایا کہ 15 ہفتے کی مدت 23 ہفتوں سے بہت زیادہ دور نہیں ہے اور اگر تو یہ معاملہ خواتین کو اسقاط حمل کے اختیار کا ہے تو خواتین یہ فیصلہ پندرہ ہفتوں تک کیوں نہیں لے سکتیں؟
جسٹس سیموئل الیٹو نے 'فیٹل وائبلٹی' کی حد پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جانب کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ متعین حد سمجھ سے بالاتر ہے، جس عورت کو حمل ختم کرنا ہے وہ یہ خواہش اس حد کے گزر جانے کے بعد بھی رکھے گی اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کی جنین کی خواہش تو جینا ہی ہے۔
دوسری جانب 'رو بقابلہ ویڈ' فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے حق میں دو ٹوک موقف رکھنے والے جج کلیرنس تھامس یہ سوال کرتے نظر آئے کہ ''یہ کہاں لکھا ہے کہ اسقاط حمل کا حق امریکی آئین کا حصہ ہے؟ مجھے دوسری ترمیم کا پتہ ہے چوتھی کے بارے میں پتہ ہے یہ کونسا حق ہے آئین میں جس کے بارے میں بات ہو رہی ہے؟''
جسٹس ایمی کوہن بیرٹ کا کہنا تھا کہ پچاس ریاستوں میں 'سیف ہیون' قوانین موجود ہیں جہاں خواتین بچہ پیدا کرنے کے بعد اس کی سرپرستی سے دستبردار ہو سکتی ہیں۔ ''ان قوانین کو اور یہ حق استعمال کرنا کتنا مشکل ہے؟''
جسٹس بریٹ کاوانو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کورٹ کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اہم کیسز میں بھی ماضی کے فیصلوں کو رد کرنے کی نظیریں آسانی سے مل جائیں گی۔
جسٹس گورسچ کا حکومت کی وکیل اعلیٰ کی جانب سے مسی سپی کے قانون کو کالعدم قرار دینے کی گزارش پر کہنا تھا کہ ''اگر ہم تئیس یا چوبیس ہفتے کی بچے کے زندہ رہنے کی ابلیت کی تاویل کو بھی مسترد کر دیتے ہیں تو کیا کوئی دوسری دانشمندانہ راہ ہے جو یہ عدالت اختیار کر سکے؟''
لبرل ججز:
لبرل جج صاحبان میں جسٹس سٹیفن بریئر کا کہنا تھا کہ 'رو کیس' جیسے تاریخی فیصلے کو الٹنے سے پہلے اس کورٹ کو ہر طرح سے غور کرلینا چاہئیے۔ ''بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اسے رد کرنے سے عدالت ہی کی بے توقیری ہوگی''۔
جسٹس علینا کیگن کا کہنا تھا کہ اس کیس کو دیکھ کر میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ 'رو اور کیسی' مقدموں کے فیصلوں کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، کیونکہ لوگوں کے لئے صحیح اور غلط وہی ہے جو وہ ہمیشہ سے سوچتے آرہے ہیں۔ بقول ان کے، ''پچاس سال گزر چکے ہیں، پچاس سال سے کورٹس یہ فیصلے دیتی آرہی ہیں کہ یہی اس ملک کا قانون ہے اور اس ملک کی خواتین کا حق ہے''۔
جسٹس سونیا سوٹومیئر نے 1973 کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ''اگر اسے کلعدم قرار دیا گیا تو کیا یہ کورٹ عوام میں ایک سیاسی ادارہ ہونے کے تاثر کی عفونت برداشت کر پائے گا؟''
اب آگے کیا ہوگا؟
عام طور پر سپریم کورٹ کے ایسے کیسز کے فیصلے آنے میں کم از کم تین ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے، مگر ماہرین کے مطابق، اس ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ جس پر معاشرہ شدید منقسم ہے، آنے میں مزید دیر بھی لگ سکتی ہے۔
[اس خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے]