شمالی شام میں کردوں پر ترک فورسز کے حملوں کے بعد شام کی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے کردوں کی مدد کے لیے سرکاری فوجوں کو ترکی کی سرحد کے ساتھ تعینات کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے حکم دیا تھا کہ ان تمام علاقوں سے امریکی فوجی دستوں کو نکال لیا جائے جہاں کردوں اور ترک فورسز کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے، تاکہ کسی بھی نقصان سے بچا جا سکے۔
ترکی کرد عسکریت پسندوں کو اپنی سرحد کے قریب ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔
شام کی حکومت کا اتوار کو سامنے آنے والا یہ اعلان کردوں کے لیے اتحاد میں ایک بڑی تبدیلی کی نشان دہی کرتا ہے۔
کرد ایک طویل عرصے سے امریکہ کی سرپرستی میں علاقے میں داعش جنگجوؤں کے خلاف لڑ رہے تھے اور انہوں نے داعش کو، جس نے شام کے ایک وسیع حصے میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی، بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔
لیکن اب امریکہ نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے جس پر اسے کردوں کی جانب سے شدید نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ امریکہ کے اندر بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ شمالی شام میں جاری جنگ کی وجہ سے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر تمام امریکی فوجیوں کو وہاں سے نکالا جا رہا ہے۔
شام کے ٹیلی ویژن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سرکاری فوجی دستے ترک جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے شمال کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے پی' کی ایک رپورٹ میں ایک شامی کرد عہدے دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ روس کے ذریعے طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت شام کی سرکاری فورسز کردوں کے زیر کنٹرول قصبوں کی طرف جا سکتی ہیں جہاں سے امریکہ اپنے فوجی نکال رہا ہے۔
شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے گروپ 'سیرین آبزرویٹری' نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت شام کی فورسز کوبانی اور منبیج جائیں گی جہاں 2015 میں داعش کے انخلا کے بعد امریکی فوجی دستے تعینات کیے گئے تھے۔