داعش کے زیر قبضہ عراقی شہر موصل کو عسکریت پسندوں سے خالی کرانے کی جنگ اب اپنے 9 ویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق داعش کے جنگجوؤں اور عراقی فورسز کے درمیان جنگ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ عام شہری بدستور پھنسے ہوئے ہیں۔ عراقی فورسز کو اس جنگ میں امریکی سرپرستی حاصل ہے۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یواین ایچ سی آر نے جمعے کے روز بتایا کہ اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے نشانہ باز ان خاندانوں ہلاک کر رہے ہیں جو پیدل یا کشتی کے ذریعے دریائے دجلہ کو عبور کرکے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
عراق کے لیے یواین ایچ سی آر کے نمائندے برونوگیڈو نے موصل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے جنگجو شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ شہریوں کے پاس کچھ کھانے کو ہے نہ پینے کو، ان کے پاس بجلی اور ایندھن بھی نہیں ہے۔ ان کے آس پاس جھڑپیں ہو رہی ہیں اور وہ خوف و ہراس کے عالم میں ناگفتہ بہ حالات میں وقت گذار رہے ہیں۔
موصل کو واپس لینے کے جنگ پچھلے سال اکتوبر میں شروع ہوئی تھی اور عراقی فورسز کو امریکی قیادت کے فوجی اتحاد کی مدد حاصل تھی۔
جنوری تک عراقی فورسز موصل کے مشرقی حصے تک پہنچی تھیں۔ اور پھر ایک ماہ بعد شروع کیے جانے والے حملے کے نتیجے میں وہ شہر کے مغربی اور قدیم حصے میں داخل ہو چکی ہیں۔
داعش کے ہاتھ سے موصل کے نکلنے کا مطلب یہ ہو گا کہ عراقی حصے پر ان کے لیڈر ابوبکر البغدادی کی خلافت ختم ہو جائے گی، جس نے تین سال پہلے قدیم شہر کی مسجد نور کے منبر پر اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا۔
ماسکو نے جمعے کےر وز یہ دعویٰ کیا کہ اس کی فورسز نے پچھلے مہینے شام کے اندر ایک فضائی حملے میں البغدادي کو اس کے کئی ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا تھا۔ لیکن واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اس کی موت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے اور مغربی اور عراقی عہدے داروں کا روس کے دعوے کی سچائی پر شک ہے۔
مئی کے مہینے میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً دو لاکھ افراد داعش کے کنٹرول کے علاقوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ لیکن جیسے جیسے سرکاری فورسز نے شہر کے اندر پیش قدمی کررہی ہیں، یہ تعداد گھٹتی جار ہی ہے۔