پاکستان کے صوبہ سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ 'ایم کیو ایم'کے سینیٹروں نے پیر کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ سے اپنے استعفٰے واپس لے لیے ہیں۔
کراچی میں جاری رینجرز کے آپریشن پر اپنے تحفظات کی بنا پر اس سال اگست میں ایم کیو ایم کے قانون سازوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ سندھ اسمبلی سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا تھا، لیکن اُن کے استعفے قبول نہیں کیے گئے۔
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت ’ایم کیو ایم‘ پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ اپنے استعفے واپس لے کر متعلقہ ایوانوں میں آ کر اپنا جمہوری کردار ادا کرے۔ تاہم ایم کیو ایم کا موقف تھا کہ جب تک ان کے تحفظات دور نہیں کیے جاتے وہ یہ استعفے واپس نہیں لیں گے۔
اس حوالے سے حکومت اور ’ایم کیو ایم‘ کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے۔ جس کے بعد حکومت نے ایم کیو ایم کے تحفظات کا جائزہ لینے کے لیے 16 اکتوبر کو ایک کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا جس کے بعد ایم کیو ایم اپنے استعفے واپس لینے پر رضامند ہو گی۔
پیر کو ایم کیو ایم کے رہنما طاہر حسین مشہدی نے پارلیمان کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے آٹھ سینیڑوں نے اپنے استعفی واپس لے لیے اور اب وہ ایوان بالا کی معمول کی کارروائی میں حصہ لیں گے۔
" متحدہ قومی موومنٹ کے تمام سینیڑوں نے سیکرٹری سینیٹ کو اپنے استعفیٰ واپس لینے کی درخواست دی۔۔۔ اس کے بعد ہم نے چیرمین سینیٹ سے ملاقات کی اور انہوں نے اس (بات) پر خوشی کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم سینیٹ میں واپس آ گئی ہے"۔
ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ اُن کی جماعت کے کارکنوں کو کراچی میں جاری آپریشن میں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اُن کی شکایات کو نہیں سنا جا رہا ہے۔
تاہم سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ان کی جماعت اس آپریشن کے خلاف نہیں ہے۔
دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ یہ آپریشن بلا امیتاز ہے اور یہ کسی مخصوص جماعت کے خلاف نہیں ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے اقتصادی شہری کراچی میں ستمبر 2013ء میں رینجرز اور پولیس نے ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا تھا جس کے بعد شہر میں امن و امان کی صورتحال میں گزشتہ سالوں کی نسبت قابل ذکر بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔