پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل جمعرات کو سعودی عرب پہچنے جہاں اُن کی بادشادہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات ہوئی۔
سرکاری طور پر اس دورے کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا مقصد یمن میں بدلتی ہوئی صورت حال پر تبادلہ خیال اور سعودی حکومت اور عوام سے اظہار یکجہتی کرنا ہے۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان یمن کے بحران کا سفارتی حل چاہتا ہے اور اُن کے بقول وزیراعظم نواز شریف کا یہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سعودی حکومت نے پاکستان سے بھی بری، بحری اور فضائی مدد مانگی تھی۔
تاہم وزیراعظم نواز شریف نے اس معاملے پر بحث اور مشاورت کے لیے پارلیمان کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جس میں پانچ روز بحث کے بعد متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں پاکستان کو غیر جانبدار رہتے ہوئے یمن کے اس بحران کے حل کے لیے سفارتی کوششیں کرنے کو کہا گیا۔
پاکستان کی طرف سے اس جنگ میں فوجیں نا بھیجنے پر بظاہر سعودی حکومت کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا، جنہیں دور کرنے کے لیے رواں ماہ ہی وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی قیادت میں ایک وفد سعودی عرب کا دورہ کر چکا ہے۔
پاکستان کی ایک بڑی مذہبی و سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے اس دورے سے سعودی عرب کے ممکنہ خدشات دور ہو سکیں گے۔
پاکستان نے بدھ کو ایک بیان میں سعودی عرب کی طرف سے یمن میں فضائی کارروائیاں روکنے کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے یمن کے بحران کے سیاسی حل کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
لیکن بدھ ہی کو سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کی طرف سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ایک بار پھر فضائیہ کی مدد سے بمباری کی گئی۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کا الزام رہا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کو امداد فراہم کرتا ہے لیکن ایران کی اس کی نفی کرتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی اور مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے اسلام آباد کے دیرینا تعلقات ہیں جب کہ ایران اس کا ایک پڑوسی ملک ہے۔ اس لیے یمن کی جنگ میں شمولیت سے پاکستان بھی اس لڑائی کے اثرات سے نہیں بچ سکے گا۔