پاکستان کی سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کے معاملے سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ حکومت نے امریکہ میں مقیم پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو ملک واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے حسین حقانی کا ذکر کرتے میمو گیٹ کے معاملے کی دوبارہ سماعت شروع کرنے کا کہا تھا اور اس کی سماعت کے لیے ایک تین رکنی بیچ تشکیل دیتے ہوئے 8 فروری کو سماعت کی تاریخ مقرر کی تھی۔
واضح رہے کہ میمو گیٹ اسکینڈل 2011ء میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔
میمو گیٹ کا معاملے منظر عام پر آنے کے بعد حسین حقانی نے نومبر 2011ء میں بطور سفیر استعفیٰ دے دیا تھا۔
جمعرات کو عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ حسین حقانی نے مستعفیٰ ہونے کے بعد کہا تھا کہ وہ دوبارہ ملک واپس آئیں گے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
اس موقع پر عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس وقت کے سیکرٹری داخلہ کو حسین حقانی کو ملک واپس لانے اور ان کو مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ اس کے بعد وزارت داخلہ نے کیا اقدامات کیے ہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کی معلومات کی مطابق اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس پر عدالت نے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری خارجہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف آئی اے' سربراہ سے اس بارے میں وضاحت طلب کی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر علی ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عدالت کے حکم پر کسی بھی شخص کو بیرون ملک سے واپس لانے کے لیے اس ملک کی حکومت سے رجوع کر سکتی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ مطلوبہ شخص کو اسی صورت میں واپس لایا جاسکتا ہے جب اس ملک کی عدالتیں بھی اس کی منظوری دیں۔
سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی پہلے ہی متنازع میمو گیٹ کی تیاری اور اس کی ترسیل سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں اور گزشتہ ہفتے اپنے ٹوئٹر بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ 2011ء میں بعض لوگوں نے اپنے سیاسی حریفوں کی مخالفت میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ہم اس وقت بھی اس امر کے خلاف تھے اور اب بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو موجودہ قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے اور ان کے بقول سیاسی معاملات کو سپریم میں نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔