پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے واشنگٹن میں اسلام آباد کے سابق سفیر حسین حقانی کے اُس دعوے کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے کہ ان کے امریکی انتظامیہ کے ساتھ قریبی روابط کے سبب امریکہ انتہائی مطلوب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن دلان کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ مطالبہ بدھ کو پارلیمان کی ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے راہنما خورشید شاہ نے بھی خواجہ آصف کے مطالبہ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
حسین حقانی پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت واشنگٹن میں اسلام آبادکے سفیر تھے جب امریکی خصوصی فورسز نے مئی 2011ء ایبٹ آباد میں روپوش شدت پسند تنظم القاعدہ کے راہنما اسامہ بن لادن کو کارروائی کر کے میں ہلاک کر دیا تھا۔
امریکہ کے ایک موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سابق سفیر حسین حقانی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بطور سفیر تعیناتی کے دوران امریکی عہدیداروں نے ان سے پاکستان میں انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے میں مدد مانگی تھی اور انہوں نے جب اس درخواست سے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا آگاہ کیا تو یہ درخواست منظور کر لی گئی۔
دوسری طرف پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے میڈیا سے گفتگو میں حسین حقانی کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے جو کام کیا وہ ملک کے مفاد کے لئے تھا اور ان کے بقول اس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لئے اچھالا جا رہا ہے۔
"بہرحال اس معاملے کو جان بوجھ کر اٹھایا جار ہا ہے اس سوال کا جواب حکومت ہی بہتر انداز میں دے سکتی ہے کہ آخر انہوں نے اس معاملے کو کیوں اٹھایا اور اگر اس کو اٹھا ہی لیا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے اور جتنے بھی ایسے واقعات ہیں ان کو سامنے لائیں اور جسٹس جاوید اقبال کی (ایبٹ آباد کمیشن) انکوائری رپورٹ کو بھی سامنے لایا جائے۔"
واضع رہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے متعلق حقائق جاننے کے لیے حکومتِ پاکستان نےجسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے جنوری 2013 میں اپنی رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو پیش کر دی تھی۔
پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے خیال میں حسین حقانی نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے اور انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے جو وقتاً فوقتاً وہ دہراتے رہے ہیں۔
" ایک مضمون کے اوپر کمیشن بن جائے ایک عجیب سی بات لگتی ہے اور انہوں نے اپنے مضمون میں کہا کہ سول اورفوج کے کن کن لوگوں سے انہوں نے ان سے اس حوالے سے بات کی ۔ میرا خیال میں (کمیشن بنانے کی بات) یہ سیاسی بیان کے زمرے میں آتا ہے ایسا ہو گا نہیں۔"
واضح رہے کہ دو روز قبل ہی حسین حقانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا تھا کہ ان کے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون کا تعلق اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بارے میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس مضمون کا تناظر کسی بھی ملک میں تعینات سفیروں اور وہاں کی حکومت کے عہدیداروں کے درمیان روابط تھا۔