وینزویلا کے متنازع صدر نے عہدے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ ملک کے عبوری صدر وین گواڈو نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے ان کے خاندان کو ہراساں کیا ہے۔ وہ متنازع صدر مدورو کے خلاف بڑے پیمانے کے مظاہروں میں یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ملک کے عبوری صدر ہیں۔
مسٹر مدورو نے10 جنوری کو ان انتخابات کے بعد اپنی دوسری مدت کی صدارت شروع کی تھی، جنہیں بڑے پیمانے پر جعلی قرار دیا گیا تھا۔ امریکہ اور دوسرے علاقائی ملک گواڈو کو عبوری صدر کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں، جب کہ چین، روس اور ترکی مدورو کی حمایت کر رہے ہیں۔
جمعرات کے روز گواڈو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ خصوصي پولیس ایک ایسے وقت میں ان کی رہائش گاہ پر گئی جب وہ گھر سے باہر تھے ۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کا تحفظ کرنے پر اپنے پڑوسیوں کا شکریہ ادا کیا۔
وینزویلا کے عبوری صدر گواڈو کا کہنا تھا کہ پہلے دو اہل کارموٹر سائیکلوں پر ان کے گھر پہنچے۔ پھر ایک سفید اسٹیشن ویگن آئی جس پر کوئی نشان نہیں تھا۔ اور وہ میری رہائش گاہ کی طرف ہوئے انہوں میری اہلیہ فابینا کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔ وہ سیکورٹی فورسز کے ارکان تھے۔
وینزویلا غربت سے متاثر رہا ہے۔ اس کی تیل پر مبنی معیشت انحطاط کا شکار ہے اور حکومت مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہے۔
امریکی نائب صدر مائیک پینس نے جمعرات کے روز انسداد منشیات کے عہدے داروں کو اس بات پر سراہا کہ انہوں نے مدورو حکومت اور منشیات کے ناجائز کاروبار کے درمیان رابطوں کا کھوج لگایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ تفتیشی کارروائیوں میں نکولس مدورو کی منشیات میں ملوث بدعنوان مطلق العنان حکومت کو ہدف بنایا گیا ہے اور مدورو کے خاندان اور قریبی حلقے کے متعدد ارکان کے خلاف منشیات کے ناجائز کاروبار کے ضمن میں جرائم کے الزامات ہیں۔
وینزویلا کے اندر ابھی تک سوشلسٹ رہنماؤں کے بہت سے حامی موجود ہیں۔
ایک عورت کا کہنا تھا کہ کمانڈر نکولس مدورو ہمارے جائز صدر ہیں۔ وینزویلا کے شہری انہیں ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں لائے تھے۔
ایک مرد کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ اقدامات اس لیے لگا رہا ہے کیونکہ وہ گواڈو کے ذریع وینزویلا کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
وینزویلا کی فوج ابھی تک مدورو کی پشت پر ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حمایت اب زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی اس لیے کہ فوجی رہنما جانتے ہیں کہ انہیں جس رقم کی ادائیگی ہونا ہے، وہ ختم ہو رہی ہے۔
مدورو نے کہا ہے کہ وہ حزب اختلاف سے مذاكرات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن انہوں نے نئے انتخابات کے انعقاد کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔