باسٹھ سالہ عبدالہادی الخواجہ جو حقوق انسانی کے ایک سرگرم کارکن بھی ہیں برسوں سے بحرین کی ایک جیل میں قید؎ کاٹ رہے ہیں انہوں نےان حالات کے خلاف احتجاج کے لئے پھر سےبھوک ہڑتال بھی کر رکھی ہے جن میں انہیں جیل میں رکھا جارہا ہے۔اب ان کی بیٹی کو بحرین آنے اور اپنے باپ کو رہا کرانے کی کوششیں کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
یہ کہانی اسوقت سے شروع ہوتی ہے جب عبدالہادی الخواجہ نامی حقوق انسانی کے سرگرم کارکن کو دو ہزار گیارہ کی عرب اسپرنگ سے متعلق بحرین میں مظاہروں کی قیادت کرنے کی پاداش میں ایسے الزامات میں قید کیا گیا، جن پر دنیا بھر میں نکتہ چینی کی گئی۔
انکے ایک بار پھر بھوک ہڑتال شروع کرنے کے بعد انکی بیٹی مریم الخواجہ نے جمعے کے روز بحرین جانے کی کوشش کی۔ تاکہ اپنے والد کی رہائی کی کوشش کر سکیں۔ لیکن لندن سے انہیں جہاز پر سوار ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
سرگرم کارکنوں کا ایک پورا گروپ مریم کا ہمسفر تھا، جس میں حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنیس کالامارڈ بھی شامل تھیں ، جنکا مقصد یہ تھا کہ وہ حکام کی جانب سے انہیں فوری طور پر گرفتار کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کر سکیں۔
لیکن قبل اسکے کہ وہ برٹش ائیرویز کی پرواز پر سوار ہوں ، انہوں نے بتایا کہ انہیں چیک ان کرنے سے روک دیا گیا کیونکہ بحرینی امیگریشن حکام نے ایر لائن سے کہہ دیا تھا کہ انہیں طیارے پر سوار نہ ہونے دیا جائے۔
اس حوالے سے برٹش ائیرویز نے سوالات کے جواب میں کہا کہ تمام ایر لائینز ، انفرادی ملکوں کے امیگریشن کنٹرول کے قوانین اور اس ملک میں مسافروں کے داخلے کے لئے عائد کردہ شرائط پوری کرانے کے لئے قانونی طور پر پابند ہیں۔
اس صورت حال سے نہ صرف ڈنمارک پر پھر سےدباؤ بڑھے گا جہاں کے دونوں باپ بیٹی شہری ہیں، بلکہ امریکہ پر بھی پھر سے دباؤ بڑھ جائے گا
جس نے بحرین کے ولی عہد کے دورے کے موقع پر اس ہفتے بحرین کے ساتھ ایک نئی دفاعی انڈراسٹینڈنگ پر دستخط کئے ہیں۔
SEE ALSO: سمندر کی سطح میں مسلسل اضافے سے بحرین کے کچھ حصوں کےڈوبنے کا خطرہ بڑھ گیامریم الخواجہ نے ایک ویڈیو پیغام میں ، جس میں انہیں ہاتھ میں سرخ بحرینی پاسپورٹ لہراتے دیکھا جا سکتا ہے اور جنکے اطراف دوسرے سرگرم کارکن بھی نظر آتے ہیں کہا کہ ہم نے برٹش ائیرویز کے کاؤنٹر پر جا کر چیک ان کرنے کی کوشش کی تو انہیں بتایا گیا کہ بحرینی شہری ہونے کے باوجود انہیں جہاز پر سوار ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اور انہوں آزردہ لہجے میں کہا یہ انتہائی مایوس کن ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ میرا اپنے والد کو دیکھنے کا آخری موقع ہو۔
ادھر بحرین کی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر ضروری ہو تو وہ کسی کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے کا اپنا حق محفوظ رکھتی ہے۔
SEE ALSO: سعودی عرب میں بحرین کے دو شہریوں کو عسکریت پسندی کے جرم پر پھانسی دے دی گئیحقوق انسانی کے گروپ فرنٹ لائن ڈیفینڈرز نے، جس نے اپنا ایک نمائندہ مریم کے ساتھ بھیجا تھا، کہا کہ مریم کواور ہمیں بحرین جانے سے روک کر ہمیں خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔
اس نے کہا ہم عبدالہادی ال خواجہ اور ان تمام سرگرم کارکنوں کو جنہیں غیر منصفانہ طور پر قید کیا گیا ہے رہا کرنے کے لئے بحرینی حکام پر دباؤ ڈالنے اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دیں گے۔
گزشتہ ماہ بحرین کے Jaw rehabilation and reform سینٹر میں عبدل ہادی الخواجہ سمیت سینکڑوں قیدیوں نے ان حالات پر احتجاج کرنے کے لئے بھوک ہڑتال کردی تھی جن میں انہیں قید میں رکھا گیا ہے۔
حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والوں کی صورت حال پر رپورٹیں تیار کرنے والی اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لا لور نے جمعے کے روز کہا ہے کہ وہ ال خواجہ اور نظر بند دو دوسرے افراد کے کیسوں کے بارے میں بدستورفکر مند ہیں۔
اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔