بحراوقیانوس میں ڈوبے دنیا کے پہلے سب سے بڑے بحری جہاز ٹائیٹیک کے ملبے کی سیاحت کے لیے جانے والی ایک چھوٹی آبدوز ٹائین کی پانچ افراد سمیت تباہی کی بازگشت ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ وہاں ایک اور آبدوز بھیجے جانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
زیرآب اس خطرناک بحری مہم کا بندوبست ایک امریکی کمپنی آر ایم ایس انکارپوریٹد کر رہی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس مہم کا مقصد ڈوبے ہوئے جہاز کے ملبے سے تاریخی اہمیت کی اشیا کو تلاش کر کے لانا ہے۔ جب کہ امریکی حکومت نے آر ایم ایس کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔
آر ایم ایس کے پاس ٹائیٹینک کے ملبے سے تاریخی نوادرات ڈھونڈنے کے قانونی حقوق ہیں۔ وہ جہاز کے تباہ شدہ ڈھانچے کے اندر سے زیورات اور چاندی کے برتنوں سمیت کئی چیزیں نکال کر ان کی نمائش کر چکی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
آر ایم ایس کمپنی امریکی ریاست جارجیا میں رجسٹرڈ ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اپنی اس نئی مہم میں وہ ٹائیٹینک کے ڈھانچے کی نئی تصاویر اتارے گی اور ریمورٹ کنٹرول سے چلنے والی ایک چھوٹی آب دوز جہاز کے ٹوٹے ہوئے حصے سے داخل کرے گی جو مارکونی روم تک جائے گی۔
مارکونی روم ٹائیٹنک کے عشرے پر سیڑھیوں کے پاس بنایا گیا ایک وائرلس آپریشن روم تھا، جہاں بیرونی دنیا سے رابطے اور پیغام رسانی کے لیے مورس کوڈ کے آلات نصب تھے۔اس زمانے میں مورس کوڈ کسی تار کے بغیر پیغام رسانی کا جدید ترین نظام تھا۔
سن 1912 میں جب ٹائیٹینک شمالی بحراوقیانوس میں ایک تیرتے ہوئے بڑے برفانی ٹکڑے سے ٹکرانے کے بعد ڈوبنا شروع ہوا تھا تو اسی مارکونی روم سے ایمرجنسی کے پیغامات نشر کیے گئے تھے جنہیں سن کر آس پاس کے کئی بحری جہاز مدد کے لیے پہنچے تھے اور ڈوبتے ہوئے ٹائیٹینک سے 700 کے لگ بھگ افراد کو بچا لیا گیا تھا۔
حادثے کے وقت ٹائیٹینک پر 2208 مسافر اور عملے کے افراد سوار تھے، جن میں سے 1500 سے زیادہ سمندر کے یخ پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ اس دور کا سب سے بڑا بحری حادثہ تھا۔
ٹائیٹینک کے بارے میں یہ کون نہیں جانتا کہ جب یہ بن کر تیار ہوا تو اسے دنیا کے سب سے عظیم جہاز ہونے کے ساتھ ناقابل تسخیر قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس کا ڈوبنا تقریباً ناممکن ہے۔ اسی لیے کسی حادثے کی صورت میں جہاز پر سوار تمام مسافروں کو نکالنے کے انتظامات موجود نہیں تھے۔
ٹائیٹینک برطانیہ کی بندرگاہ ساؤتھمٹین سے 12 اپریل 1919 کو نیویارک کے لیے اپنے اولین سفر پر روانہ ہوا تھااور 15 اپریل کو اپنے بدقسمت مسافروں سمیت ہمیشہ کے لیے بحر اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں غرق ہو گیا۔
آرایم ایس ٹائیٹینک انکارپوریٹڈ اب تک اپنے آٹھ مشن جہاز کے ملبے تک بھیج چکی ہے اور وہاں سے نکالی جانے و الی اشیا میں سے پانچ ہزار سے زیادہ چیزوں کو نیلام کر چکی ہے جن میں جیولری سے لے کر جہاز کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تک شامل ہیں۔
کمپنی اپنی نئی مہم میں ٹائیٹینک کے مارکونی روم کے آلات سمیت کئی اور چیزیں نکال کر لانا چاہتی ہے، لیکن امریکی حکومت اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تاہم نئے مشن کو روکنے کی کوشش کا اس سال جون میں ہونے والے اس حادثے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس میں ٹائٹن نامی ایک چھوٹی آبدوز ٹائیٹینک کے ملبے کے قریب دھماکے سے پھٹ کر تباہ ہو گئی تھی۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے پانچ افراد میں سے دو امیر پاکستانی تھے جنہوں نے اس مہم جوئی کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر فی کس کے حساب سے ادائیگی کی تھی۔
امریکی حکومت نے یہ مقدمہ ورجینیا کے شہر نارفولک کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں ٹائیٹینک کے تحفظ کے امور سے متعلق امریکہ اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جہاز کے ڈھانچے میں داخل ہونا، یااس کے ملبے کی حیثیت کو تبدیل کرنے سے اس میں موجود نوادرات یا ممکنہ طور پر موجودانسانی باقیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی معاہدے میں ممانعت کی گئی ہے۔
عدالت میں دائر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آر ایم ایس کمپنی مئی 2024 میں اپنی مہم بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
جب کہ کمپنی کا موقف ہے کہ مجوزہ مہم کے دوران اس کا ٹائٹینک کے ڈھانچے کے کسی حصے کو کاٹنے یا اسے الگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے آر ایس ایم کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے تین عشرے قبل اسے ٹائیٹینک کے ملبے کے تحفظ سے متعلق حقوق عطا کیے تھےجس کے بعد سے کمپنی ٹائیٹینک میں سے ہزاروں چیزیں دریافت اور محفوظ کر چکی ہے اور اسے لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔
کمپنی کا مزید کہناتھا کہ وہ احترام کوملحوظ رکھتے ہوئے ٹائیٹیک کے مسافروں اور عملے کی یاداشتوں اور وراثت کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کے لیے کام کرتی رہے گی۔
اس سے قبل آر ایم ایس نے 2021 کے اوائل میں ٹائیٹینک کے لیے اپنی ایک مہم ترتیب دی تھی جسے کرونا وبا کے پھیلاؤ کے باعث غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
(ایسوسی ایٹڈ پریس سے ماخوذ)