رسائی کے لنکس

انتظامیہ سے مذاکرات کامیاب، وی او اے ڈیوہ کے رپورٹر فیاض ظفر کی رہائی کا حکم


پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں حکام نے حراست میں لیے گئے وائس آف امریکہ ڈیوہ سروس سے وابستہ صحافی فیاض عمر کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

صحافی کی گرفتاری پر صحافتی تنظیموں اور سماجی و سیاسی حلقوں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی جس کے بعد انتظامیہ کے صحافیوں اور عمائدین سے ہونے والے مذاکرات کے بعد فیاض عمر کو رہا کرنے کا فیصلہ ہوا۔

ڈپٹی کمشنر سوات کے دفتر سے جاری نوٹی فکیشن میں فیاض ظفر کے خلاف تھری ایم پی او کا آرڈر واپس لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر فیاض ظفر کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو انہیں جیل سے رہا کیا جائے۔

وائس آف امریکہ کی ڈیوہ سروس سے وابستہ رپورٹر فیاض ظفر کو بدھ کی رات ڈپٹی کمشنر سوات کے حکم پر حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر مبینہ طور پر تشدد کیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہیں تھانہ سیدو شریف منتقل کر کے ان کو باقاعدہ گرفتار کر کے سوات سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

فیاض ظفر نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر لکھا تھا کہ انہیں سوات کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سوات جیل منتقل کر دیا گیا۔

اس گرفتاری کے بعد صحافیوں، وکلا اور سول سوسائٹی سے وابستہ نمائندوں نے جمعرات کو انتظامیہ سے مذاکرات کیے جس کے بعد فیاض ظفر کے خلاف تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا حکم واپس لے لیا۔

صحافی تنظیموں نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ فیاض ظفر کو رہا کیا جائے۔ وفاقی نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کو جلد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل طارق افغان کے مطابق انگریز کے بنائے ہوئے قانون تھری ایم پی او کے تحت سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری اور سزا دینے کے واقعات تو سنے تھے مگر پہلی بار کسی صحافی کو اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے فیاض ظفر کی گرفتاری کی مذمت کی۔ ان کے بقول ایسا لگتا ہے کہ حکام یا سیکیورٹی ادارے کچھ ایسا چھپانے کی کوشش میں ہیں جس کے بارے میں فیاض ظفر کو علم ہے۔

سوات کے صحافی عیسیٰ خانخیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چند روز قبل فیاض ظفر نے سوات میں ایک لڑکے کی گرفتاری کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک پیغام دیا تھا۔ اس سے قبل فیاض ظفر نے سوات کی تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقوں میں مبینہ عسکریت پسندوں کے گشت کی تصاویر سوشل میڈیا اور اپنی رپورٹس میں شائع کی تھیں۔

فیاض ظفر کی گرفتاری پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ورکز کے سیکریٹری جنرل راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے صرف نا اہلی چھپانے کے لیے ذرائع ابلاغ پر نئی پابندیاں عائد کر رہے ہیں جس کی کسی طور بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جب ملک میں مالی اور معاشی بحران ہے تو بعض ریاستی ادارے نگراں حکومت کو درپیش مشکلات میں اضافے کی کوشش کر رہے ہیں۔

راجہ ریاض نے مطالبہ کیا کہ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سیکیورٹی اور انتظامی اداروں کے ان اقدامات کا نوٹس لیں۔

پشاور پریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک نے فیاض ظفر کے خلاف سوات انتظامیہ کے اس اقدام کو غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیا۔

ان کے بقول اگر کوئی صحافی یا رپورٹر غلط خبر دے تو اس کے ازالے کے لیے قوانین اور راستے موجود ہیں مگر ایسا تو نہیں کہ ڈپٹی کمشنر یا ضلعی پولیس افسر صحافی کو دفتر بلائے اور اس پر تشدد کرے ۔

انہوں نے خیبر پختونخوا کے نگراں وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان اور نگراں وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال کاکاخیل سے سوات انتظامیہ کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG