پاکستان کے ایک حساس ادارے "انٹیلی جنس بیورو" کے سربراہ نے داعش کو ملک کے لیے ایک نیا ابھرتا ہوا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دیگر کالعدم شدت پسند تنظیمیں بھی دوبارہ سے منظم ہو رہی ہیں۔
بدھ کو ایوان بالا "سینیٹ" کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے سامنے "آئی بی" کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان نے بتایا کہ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسی شدت پسند تنظیمیں داعش کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔
کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رحمن ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ داعش کی موجودگی تشویش کا باعث ضرور ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
"داعش کی موجودگی سب کے لیے باعث تشویش ہے اور اس کے خلاف حکومت کارروائی کر رہی ہے اور مزید اس کو بڑھایا جائے گا۔ یہ بھی انھوں نے بتایا کہ پنجاب اور دوسرے حصوں سے داعش میں شمولیت کے لیے لوگ شام گئے ہیں یہ بھی اچھی صورتحال نظر نہیں آرہی اور القاعدہ کے مختلف گروپ بھی داعش میں شامل ہو رہے ہیں۔"
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوج جو اقدام کر رہی ہے ان کی وجہ سے انھیں امید ہے کہ اس خطرے سے نمٹنے میں بھی خاصی مدد ملے گی۔
رحمن ملک کا کہنا تھا کہ داعش سے نمٹنے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنانے کی ضرورت ہے۔
شدت پسند گروپ داعش نے 2014ء میں عراق اور شام کے وسیع حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اپنا دائرہ اثر خراسان یعنی پاکستان، افغانستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں تک بڑھانے کا اعلان کیا تھا جب کہ گزشتہ برس کے اواخر میں اس کے شدت پسند پاکستانی سرحد کے قریب افغان علاقوں میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک میں مختلف شدت پسند تنظیموں کے لوگ داعش کا نام استعمال کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس تنظیم کا یہاں کوئی وجود نہیں۔
ایسے میں ملک کے ایک اہم انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کا بیان بلاشبہ داعش کے خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔
دریں اثناء تقریباً پانچ ہزار کے قریب مختلف مسالک کے علما اور مشائخ کی اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں شدت پسند گروپ داعش کی مذمت کرتے ہوئے نوجوان نسل کو اس کے عزائم سے دور رکھنے کے لیے علما کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
پیغام اسلام کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس کا انعقاد کرنے والی پاکستان علما کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کانفرنس کے ذریعے علما پر زور دیا گیا کہ وہ اسلام اور جہاد کے نام پر بے گناہ انسانوں کا خون بہانے والے گروہوں کے خلاف میدان عمل میں نکلیں۔
"داعش کو خوارج قرار دیتے ہوئے علما سے کہا گیا کہ وہ اس فتنے کے بارے میں نوجوان نسل کو آگاہ کریں۔۔۔یہ ایک نظریاتی فکری محاذ اور اتحاد کی طرف قدم ہے اور مسلمان نوجوانوں کو صرف نظریاتی و فکری طور پر پر محنت کر کے بچایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ تشدد سے تو آپ نے دیکھا مسئلہ حل نہیں ہوا اور نہ حل ہوگا۔"
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں علما کی کانفرنس میں شرکت ایک مثبت پیش رفت ہے اور ان کے بقول شدت پسند گروہوں اور فتنوں کے خلاف سوچ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔