مقدمے کے دوسرے دن کی ابتدا میں ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کمرہ عدالت میں کھڑے ہو کر شکایت کی کہ ان کی باتوں کو غلط پس منظر میں پیش کیا جاتا ہے، اور وہ ماضی میں امریکہ کے حق میں جو کچھ لکھ چکی ہیں اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔
جج رچرڈ برمن نے کہا کہ وہ وقت آنے پر اپنے حق میں گواہی دے سکتی ہیں۔
استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے گواہ احمد گل نے، جو افغانستان میں امریکی افواج کے لیے مترجم تھے، عدالت کو اٹھارہ جولائی سن 2008 کے واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی کمر اس پردے کی طرف تھی جس کے پیچھے ڈاکٹر صدیقی موجود تھیں۔ جب امریکی فوجی کیپٹن سنائیڈر نے چینخ کر کہا کہ ”اس کے پاس رائفل ہے” تو انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ ڈاکٹر صدیقی بندوق اٹھائے پلنگ کے پاس کھڑی تھیں۔
مسٹر گل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو رائفل سمیت دھکا دیا اور جب امریکی چیف وارنٹ افسر نے ان کے پیٹ میں گولی ماری تب وہ بمشکل ان سے رائفل چھین پائے۔ اس دوران ان کے مطابق رائفل سے دو گولیاں چلیں۔
گزشتہ روز کیپٹین سنائیڈر نے بیان دیا تھا کہ ڈاکٹر صدیقی رائفل تانے پلنگ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھیں۔ وکیل صفائی لنڈا مورینو کے پوچھنے پر مسٹر گل نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو پلنگ پر گھٹنوں کے بل بیٹھے نہیں دیکھا۔
وکلاء صفائی کی جرح پر مسٹر گل نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ امریکی حکومت کے تعاون سے امریکہ منتقل ہو چکے ہیں اور امریکی شہریت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک نامی تنظیم ایک امریکی حکومت کے خلاف تشدد کے الزام میں کئی مقدمات دائر کر چکی ہے اور ڈاکٹر صدیقی کے بڑے بھائی محمد صدیقی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ اس کی ڈائریکٹر ٹینا فوسٹر کا کہنا ہے کہ ”اب تک استغاثہ تین مختلف کہانیاں عدالت میں پیش کر چکی ہے، اور ابھی انہوں نے اپنا کیس آدھا بھی پیش نہیں کیا۔”
البتہ محترمہ فوسٹر نے تشویش ظاہر کی کہ استغاثہ بار بار مختلف طریقوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ان کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان کے صوبے غزنی کے ایک پولیس ہیڈ کوارٹر میں ان سے تفتیش کے لیے آنے والی امریکی ٹیم پر ایم فور رائفل سے حملہ کیا ۔
استغاثہ کے پیش کردہ ایف بی آئی کے ماہرین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر صدیقی کی انگلیوں کے نشان ان کاغذات پر سے تو ملے ہیں جو مبینہ طور پر حراست کے وقت ان کے پاس سے دستیاب ہوئے تھے لیکن اس رائفل پر نہیں ملے جس سے انہوں نے مبینہ طور پر گولیاں چلائی تھیں۔
سرکاری گواہ اور انگلیوں کے نشانات کے ماہر ٹی جے فائف نے جیوری کو بتایا کہ ہتھیاروں پر سے انگلیوں کے نشان حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور صرف دس فیصد کیسوں میں ایسے نشان ملتے ہیں جو پہچانے جا سکتے ہیں۔ اس ماہر کی گواہی جاری ہے اور جمعرات کی صبح وکلاء صفائی اس سے جرح کریں گے۔
عدالتی کاروائی شروع ہونے کے بعد ڈاکٹر صدیقی دن بھر خاموش رہیں اور زیادہ تر اپنے سامنے پڑی میز پر سر ٹکائے رہیں۔ گزشتہ روز کاروائی کےدوران بولنے پر انہیں کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
جمعرات کی صبح وکلاء صفائی سرکاری گواہ جرح کریں گے