ایک امریکی عدالت کی جانب سےپاکستانی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو دہشت گردی کے7 الزامات میں 86 برس قید کی سزا سنائے جانے کے معاملے پر جہاں ملک بھر میں عوامی احتجاج اور سیاسی بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے وہیں پاکستانی اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز نے بھی اس خبر کو شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔
جمعہ کے روز مختلف شہروں سے شائع ہونے والے تمام بڑے ملکی اخبارات نے عافیہ کو سزا سنائے جانے کی خبر شہ سرخی کے طور پر شائع کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم، سیاستدانوں اور ان کے اہلِ خانہ کے ردِ عمل کو صفحہء اول پہ جگہ دی ہے۔ جبکہ کئی اخبارات نے ان کے حالاتِ زندگی اور افغانستان اور امریکہ میں ان کی قید کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی شائع کیے ہیں۔
بیشتر اخبارات نے ڈاکٹر عافیہ کا اپنی سزا سننے کے بعد عدالت میں دیا جانے والا یہ بیان بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے کہ ان کی سزا کے ردِعمل میں خون کی ہولی نہ کھیلی جائے ۔
کراچی سے شائع ہونے والےایک بڑے روزنامے "ایکسپریس" نے "امریکا میں ڈاکٹر عافیہ کو 86 سال قید کی سزا" کی سرخی لگائی ہے۔ اخبار نے شہہ سرخی کے عین نیچےکراچی میں مقیم ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا ردِ عمل تین کالم میں ان الفاظ میں شائع کیا ہے "سزا حکومت اور اسلامی حکومتوں کے منہ پر طمانچہ ہے، تحریک چلائینگے"۔ اسکے علاوہ اخبار نے اپنے صفحہ اول پر واقعہ اور اس پر مختلف حلقوں کے ردِعمل کی درجن بھر سے زیادہ چھوٹی بڑی خبریں بھی شائع کی ہیں۔
روزنامہ "جنگ" کراچی نے عافیہ کو سزا سنائے جانے کی خبر کے ساتھ "کمرہ عدالت میں جج کے خلاف شیم شیم کے نعرے " کے الفاظ بھی شہہ سرخی میں شائع کیے ہیں۔ اخبار نے عدالتی کاروائی کا ایک بڑ ا اسکیچ بھی شائع کیا ہے جس میں عافیہ صدیقی کو نقاب پہنے دکھایا گیا ہے۔ جبکہ سزا کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا عدالت میں بیان تین کالم میں "عدالت نے ناانصافی کی، تشدد اور تصادم کا راستہ اختیار نہ کیا جائے" کی سرخی کے ذیل میں شائع کیا گیاہے۔
اخبار نے عافیہ کے اہلِ خانہ کے ردِعمل کو "ایوانوں میں بیٹھے لوگ عافیہ کی سزا کے ذمہ دار ہیں" کے عنوان سے صفحہ اول پر جگہ دی ہے۔ اخبار نے اپنے صفحہ اول پر نیو یارک میں مقیم اپنے نمائندہ کا ایک تجزیہ بھی شائع کیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ امریکی عدالت کے سامنے دیے گئے ڈاکٹر عافیہ کے بیانات ان کا کیس کمزور کرنے کا سبب بنے۔ تجزیے کے مطابق عافیہ کو امریکی قوانین کے تحت انتہائی سخت اور زیادہ سے زیادہ سزا سنائی گئی۔
اخبار نے بیک پیج پر ایک بلاک میں سزا کے خلاف مختلف پاکستانی تنظیموں اور سیاسی شخصیات کے بیانات اور ردِعمل کو بھی جگہ دی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے انگریزی روزنامے "ڈان" نے ڈاکٹر عافیہ کی دورانِ قید لی جانے والی ایک تصویر کے ساتھ انہیں سزا سنائے جانے کی خبر لیڈ کے طور پر شائع کی ہے۔ اخبار نے ڈاکٹر ٰعافیہ کا یہ بیان بھی سپر لیڈ کے طور پر شائع کیا ہے جس میں انہوں نے سزا کے خلاف امریکی عدالتوں سے اپیل کو وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔
لاہور سے شائع ہونے والے اخبار "نوائے وقت" نے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کا ردِ عمل "حکومت نے سنجیدگی سے پیروی نہیں کی، امریکہ کے خلاف نفرت پھیلے گی" کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ اخبار نے ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کے ردِعمل پر "گزشتہ حکومت نے عافیہ کو ایک بار، موجودہ نے بار بار بیچا" کی سرخی جمائی ہے۔ اس کے علاوہ اخبار نے صفحہ اول پر ڈاکٹر عافیہ کی دورانِ قید لی گئی بڑے سائز کی ایک تصویر کے علاوہ ان کی رہائی کیلیے ہونے والے مظاہروں، امریکی عدالت کے اسکیچ اور ان کی والدہ اور بہن کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے اشتراک سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار "ایکسپیرس ٹریبیون" نے عافیہ کو سزاسنائے جانے کی خبر کی ذیلی سرخی کے طور پر ان کا ایک بیان شائع کیا ہے جس میں انہوں نے دورانِ قید اپنے اوپرہونے والے تشدد کی تردید کی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنائے جانے کا معاملہ جمعرات کی شب سے ہی پاکستانی نیوز ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائن بنا رہا۔ چینلز نے سزا کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں کی براہِ راست کوریج کرنے کے ساتھ ساتھ خصوصی نیوز بلیٹنز میں قانونی ماہرین، سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کی آراء نشر کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
کئی نیوز چینلز نے ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنائے جانے کے معاملے پر مختلف شہروں میں راہ چلتے عام افراد کی رائے اور ردِعمل بھی نشر کیا۔