ڈاکٹرعافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہیں اوراُن کے پاس امریکہ یا کسی اور ملک کی شہریت نہیں ہے۔
ڈاکٹر صدیقی کے وکیل صفائی چارلز سوفٹ کے مطابق، ماضی میں ڈاکٹر صدیقی کئی سال تک سٹوڈنٹ ویزے، یعنی طالب علموں کو دیے جانے والے ویزے پر امریکہ میں رہ چکی ہیں، تاہم اُن کے پاس گرین کارڈ یا امریکہ میں مستقل رہائش کے کوئی کاغذات نہیں ہیں۔
صدیقی خاندان کی امریکہ میں ترجمان ٹینا فوسٹر کے مطابق ڈاکٹر صدیقی نے کبھی بھی امریکی شہریت کے لیے درخواست نہیں دی۔
امریکی حکومت کی طرف سے جب انہیں افغانستان سے گرفتار کر کے امریکہ لایا گیا تو انہیں سپیشل یا سگنیفیکنٹ پبلک بینیفٹ پیرول دیا گیا تھا۔ یہ امریکہ میں داخلے کا ایسا طریقہ ہے جس کی درخواست صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کر سکتے ہیں اور یہ ان غیر امریکیوں کو دیا جاتا ہے جنہیں جلد از جلد امریکہ لا کر کسی قانونی کاروائی کا حصہ بنانامقصود ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صدیقی کو گذشتہ ماہ نیو یارک کی ایک عدالت نے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ امریکی قانون کے مطابق دنیا کے کسی حصے میں بھی کسی امریکی شہری پر حملہ کرنے یا قتل کرنے والے پر امریکہ میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
عدالت کے مطابق جولائی سنہ 2008 میں ڈاکٹر صدیقی نے افغانستان کے صوبے غزنی کے ایک پولیس سٹیشن میں ایک امریکی تفتیشی ٹیم پر حملہ کیا تھا اور ایک ایم فور رائفل سے دو گولیاں چلائی تھیں۔ وکلائے صفائی کے مطابق جائے وقوعہ پر گولیاں چلنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
ڈاکٹر صدیقی کے غزنی پہنچنے سے متعلق بھی بہت سی مختلف آراء ہیں۔ ان کے حامیوں کے مطابق انہیں 2003ء میں پاکستان سے خفیہ ایجنسیوں نے ان کے تین بچوں سمیت اغوا کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا تھا اور انہیں پانچ سال خفیہ جیلوں میں رکھ کر ان پر تشدد کیا گیا جس سے ان کا ذہنی توازن بھی متاثر ہوا۔
جبکہ امریکی حکومت کے مطابق ڈاکٹر صدیقی کا نام گیارہ ستمبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی تفتیش کے دوران سامنے آنے پر وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئی تھیں اور طالبان سے ملنے یا امریکی افواج پر حملہ کرنے غزنی گئی تھیں۔
غزنی میں اُن کے سامنے آنے کے بعد سے ہی پاکستان میں اُن کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستانی حکومت پر دباؤ ہے کہ انہیں پاکستان واپس بلایا جائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اُس نے ماضی میں بھی ڈاکٹر صدیقی کی ہر ممکن قانونی اور سفارتی مدد کی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔
معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر صدیقی کے وکلاء کی اب تک کی دو ملین ڈالر کی فیسیں اور اخراجات پاکستانی حکومت نے ادا کیے ہیں۔