آسیہ کا نام ’اِی سی ایل‘ میں شامل کرنے کی درخواست مسترد

فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ مسیح کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کے حوالے سے دائر کی جانے والی درخواست مسترد کردی ہے۔

اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسلام آباد کی لال مسجد کے ترجمان حافظ احتشام نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کے حوالے سے سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا ہے اور امکان ہے کہ اگر عدالت اس کے حق میں فیصلہ دے گی تو اسے فوراً ملک سے نکال لیا جائے گا۔ لہذا، اس کا نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں شامل کیا جائے اور ملک سے فرار نہ ہونے دیا جائے۔

اس معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔

عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہے اور عدالتی فیصلے سے قبل کسی قسم کا کوئی حکم نامہ جاری کرنا اعلیٰ عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہوگا۔ لہذا، اس درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیکر مسترد کیا جاتا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مختصر فیصلہ سنا دیا۔

توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ بی بی سال 2009 سے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہے۔

آسیہ بی بی کے خلاف جون 2009 میں توہین رسالت کے الزام میں درج مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے اور اگلے برس 2010 میں انھیں اس مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

اکتوبر 2016 میں مجرمہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں سنی گئی تھی۔ لیکن، اس تین رکنی بنچ کے ممبر جج اقبال حمید الرحمٰن نے کہا کہ کیونکہ وہ ماضی میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور آسیہ بی بی کا مقدمہ بھی اسی سے منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔

اس کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے گذشتہ ہفتے اس کیس کی سماعت کا فیصلہ کیا اور ایک روزہ سماعت کے بعد اس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اور میڈیا پر اس حوالے سے ٹاک شوز اور تبصرہ کرنے پر پابندی لگاتے ہوئے مناسب وقت پر فیصلہ سنانے کا کہا ہے۔