(انٹرویو کا دوسرا حصہ) ایدھی فاؤنڈیشن آج تک رجسٹرڈ نہیں کروایا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی ضرورت نہیں۔ تاہم اس حوالے سے حیدر آباد کی ایک عدالت میں دو صفحات پر مشتمل ڈکلریشن کیلئے ایک درخواست جمع کروائی گئی تھی جو گجراتی میں تحریرکی گئی اور اس میں اپنے مقاصد سے آگاہ کیا گیاتھا۔ عدالت نے ڈکلریشن دے دی جس کے بعد انہوں نے ایک پرانی ہملٹن ایمبولینس خرید لی اور25 سال تک اس کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرتے رہے ۔ ایک چار پائی پر سوتے تھے لیکن کوئی ڈر اور خوف نہ تھا۔ یہ سب خدمات دیکھ کر لوگوں کی ہمدردی اور دلچسپی مزید بڑھی اور ان کی طرف مائل ہونے لگے۔ ایمبولیس کے ذریعے مریضوں کو گھر سے اسپتال اور اسپتال سے گھر منتقل کرتے تھے۔ ریڈکراس اور سین جون بھی گئے اور ان کے لائیو ممبر بھی بنے۔ اس دوران ادارے کو پیسے مل بھی رہے تھے اور مستحقین میں ان کی تقسیم بھی جاری تھی۔ قربانی پر لوگ جانوروں کی کھالیں بھی جمع کروا رہے تھے۔35 ، 35 ہزار کھالیں جمع ہو گئیں ۔رمضان المبارک میں فطرہ بھی دیا جا رہا تھا، لہذا انسانیت کی خدمت دن بدن بڑھتی گئی ۔
کہتے ہیں کہ ہمیشہ ظلم کی مخالفت کی اور اسی باعث انہیں 'برادری بدر' بھی کیا گیا ۔ ان کے بقول برادری سے نکالنے کی وجہ یہ تھی کہ میں انسان تھا اور تقسیم کو پسند نہیں کرتا تھا۔ مذہبی ، برادری اور جان پہچان یہ سارے ایسے ہتھکنڈے ہیں جن سے انسانیت کا استحصال ہوتا ہے۔ آغاز میں بہت سے لوگوں نے دل کھول کر مخالفت کی، مخالفت کرنے والوں میں سب سے زیادہ سرمایہ دار تھے کیونکہ وہ فلاحی کام بھی کاروبار سمجھ کر کرتے ہیں لیکن کسی کی پروا نہیں کی اور اپنے کام سے کام رکھا اور آہستہ آہستہ پیسہ جمع ہوتا گیا جس کے باعث فلاحی کاموں کے لئے مزید جگہ بھی خرید تے رہے۔
اس کے بعد ایک سولہ ہزار تین سوروپے مالیت کی ایک نئی ایمبولینس خرید ی ۔ کہتے ہیں کہ یہ جگہ لوگوں کے دل میں بسنے کی ہے، آج بھی جب لوگ عطیات جمع کروانے آتے ہیں تو یاد کرتے ہیں کہ پچاس سال قبل ایدھی نے ان کی بوڑھی ماں کو اپنی ایمبولینس میں اسپتال پہنچایا تھا۔ یہاں کے لوگ احسان کا بدلہ دینا خوب جانتے ہیں ۔
اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں کراچی کے علاقے لیاری میں بسم اللہ بلڈنگ منہدم ہو گئی ۔ وہاں ایدھی کے رضا کار امدادی کارروائیوں میں مصروف تھے کہ بھٹو صاحب پہنچ گئے ۔ رضا کاروں کو کام کرتا دیکھ کر انہیں بلایا اور کہنے لگے کہ اگر میرے پاس ایسے رضا کار ہوتے تو انقلاب برپا کردیتا ۔ بے نظیر بھٹو بھی اکثر بلقیس ایدھی سے ملنے آتی تھیں اور عطیات دیتی تھیں ۔
ایدھی ٹرسٹ کا جتنا بھی کام پھیلا ہواہے یہ سب اللہ کا کرم ہے۔ کبھی کسی حکومت یا غیر ملک سے امداد طلب نہیں کی بس عوام کے سامنے ہی جھولی پھیلائی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے پانچ لاکھ کا عطیہ دیا لیکن وہ واپس کر دیا گیا کیونکہ وہ کسی حکومت کے غلام نہیں بننا چاہتے۔ بقول ایدھی صاحب اس ملک میں صرف تین باصلاحیت حکمران رہے ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور سابق صدر پرویز مشرف شامل ہیں ۔ بقول ان کے صدر مشرف اچھا آدمی ہے لیکن اسے سیاست دان کبھی حکومت میں نہیں آنے دیں گے۔ ضیاء الحق نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ڈرامہ رچایا۔ اس کا رنگ مذہبی نہیں بلکہ ڈرامائی تھا۔ 73 ممالک میں گیا لیکن پاکستان جیسی قوم نہیں دیکھی اگر حکمراں مخلص مل جائیں تو پاکستان امریکا سے امداد لینے کے بجائے اسے دے سکتا ہے ۔ اگر ٹیکس و زکوة میں چوری اور فضول خرچی چھوڑ دی جائے تو ہم دنیا بھر میں امداد دینے کے قابل ہو جائیں ۔ صدر آصف علی زرداری نے پوچھا کہ کوئی کام ہو تو بتائیں، جواب میں کہا کہ اس ادارے کیلئے عوام ہی بہت ہیں۔ بیورو کریسی بھی بھر پور امداد فراہم کرتی ہے ۔ یوایس ایڈ سمیت مختلف تنظیمیں بھی فنڈز دینے سے متعلق رابطے کرتی رہتی ہیں لیکن انہیں ہمیشہ انکار کیا ۔ امریکا نے ہیلی کاپٹر دیا تھا لیکن اب وہ پرانا ہو گیا لہذا ایک اور ہیلی کاپٹر چاہیے ۔
لبنان اور بیروت کی جنگ کے دوران صرف ایدھی ٹرسٹ امدادی کارروائیوں میں مصروف تھا، اس دوران ایران اور دبئی کی جانب سے امداد کی پیشکش کی گئی لیکن پھر انکار کر دیا کیونکہ اس ادارے کو جو اپنی قوم دیتی ہے وہ بہت ہے ۔سوات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسپتا ل کھولا اور چارمیڈیکل اسٹورز قائم کیے گئے۔ وہاں خواتین پردے کا خاص اہتمام کرتی ہیں لیکن ان کے سامنے وہ عورتیں بھی گھونگٹ اٹھا کر سلام کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایدھی ان کے والد سے بھی زیادہ محترم ہیں ۔ الحمداللہ پاکستان میں 75 فیصد لوگ انہیں پہچانتے ہیں۔ سیلاب میں حکومت وقت نے پی ٹی وی کے ذریعے امداد کی اپیل بھی ان ہی سے کروائی۔ خدا کے فضل سے سیلاب زدگان کیلئے ایدھی کو بھی لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیئے ۔
عبدالستار ایدھی اب تک اپنے ہاتھوں سے تقریباً پونے دو لاکھ مردوں کو غسل دے چکے ہیں لیکن اب 88 سال تک عمر جا پہنچی ہے لہذا مختلف سینٹرز میں رضا کاروں کو اس کی تربیت دے دی گئی ہے ۔
نوبیل پرائز کیلئے بے نظیر بھٹو کے دور میں نام بھجوایا گیا تھا لیکن انہیں اس بات سے غرض نہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہاں کے عوام کا پیار ہی سب کچھ ہے ۔ بتاتے ہیں کہ کراچی سے پشاور جاتے جاتے جہاز میں پچیس سے تیس ہزار روپے جمع ہو جاتے ہیں جبکہ پشاور میں تو یہ حال ہے کہ میں اگر اپنی بچیوں کے ساتھ کہیں بیٹھ جاؤں تو خواتین اپنا سونا اتار کر بھی دینے سے گریز نہیں کرتیں ۔
پٹھان لوگ اکثر ان سے پشتو میں بات کرنے لگتے ہیں کیونکہ شکل اور لباس سے وہ بھی پٹھان ہی نظر آتے ہیں ۔ بتاتے ہیں کہ ستر سال سے وہ ایک ہی رنگ کا لباس زیب تن کرتے ہیں، باچا خان کی بیلچہ تحریک سے بہت متاثر تھے اور باچا خان سے متاثر ہو کر ملیشیا پہننا شروع کیا ۔ انہیں باچا خان ایوارڈ بھی دیا گیا ۔
مسکان بھرے چہرے سے بتاتے ہیں کہ یاد نہیں اب تک کتنے ایوارڈ حاصل کیے ہیں اور کس کس نے دیئے البتہ بیٹی کبریٰ کی الماری بھر چکی ہے ۔ بچے ، عورتیں ، نوجوان سب ” ابو “ کہہ کر پکارتے ہیں جو اچھا لگتا ہے ۔
ایک مرتبہ بلوچستان گئے تو راستے میں ڈاکو آگئے۔ لیکن جب انہوں نے پہچانا تو فوراً نہ صرف معافی مانگ لی بلکہ امدادی رقم کے بھی ڈھیر لگادیئے اور خود انہیں بحفاظت کوئٹہ پریس کلب پہنچایا۔ اسی رات انہیں فوج نے اٹھا کر ڈی آئی خان پہنچادیا۔ فوج کا کہنا تھا کہ شرپسندوں نے اغواء کرلیا تو حکومت کو بلیک میل اور تاوان طلب کریں گے۔
وہ وزیرستان بھی گئے اور وہاں طالبان نے بھی ان سے ملاقات کی۔ طالبا ن انہیں خدائی فقیر کہتے ہیں۔
ظالموں کی تعریف ان کے نزدیک غیر منصفانہ دولت کی تقسیم کرنے والے، مہنگائی اور غربت پھیلانے والے ہیں ۔
پہلا حصہ:
73 ممالک دیکھے، پاکستان جیسی قوم نہیں دیکھی
تیسرا اور آخری حصہ: