( تین حصوں کی سیریز کا پہلا حصہ) پاکستان میں انسانیت عبدالستار ایدھی سے شروع ہوتی ہے۔ اٹھاسی سالہ عبدالستار ایدھی نہیں جانتے کہ پیسے کے پیچھے بھاگنا کیا ہوتا ہے، آج تک کسی حکومت سے امداد نہیں لی، صرف عوامی تعاون سے 63، 64 سالوں سے ایک ایسا رفاہی ادارہ چلا رہے ہیں جس کے ماہانہ اخراجات ایک کروڑ سے زائد ہیں۔ سادہ اتنے کہ بتاتے ہیں ادارے میں امدادی رقم ڈبل آتی اور سنگل خرچ ہوتی ہے۔ نڈر ایسے کہ کوئی پروٹوکول نہیں، بدترین حالات میں بھی کوئی سیکیورٹی حصار نہیں۔ بلوچستان گئے تو ڈاکو تائب ہوگئے، فنڈز دیئے ۔ شمالی وزیرستان گئے تو طالبان نے بے لوث رہنما مان لیا اور ڈھیروں امداد دے کر بحفاظت روانہ کیا۔ کوئی خوف نہیں کوئی لگی لپٹی نہیں۔ ۔۔ اور سب سے بڑھ کر سراہے جانے کی کوئی تمنا بھی نہیں۔
وائس آف امریکا سے خصوصی بات چیت کے دوران عبدالستار ایدھی نے دل کھول کر باتیں کیں۔ جس میں بچپن، نوعمری، جوانی، رومانس، شادی، جدوجہد، غربت، امارت، گلے شکوے سب ہی کچھ تھا۔
عبدالستارایدھی 1928کو بھارت کے شہر گجرات میں بانٹوا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ یہاں زیادہ تر افراد کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا اور ذریعہ معاش کاروبار تھا۔ چار بھائی اور دو بہنیں تھیں لیکن سب سے چھوٹے بھائی عزیز کے علاوہ سب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ والدین کی تربیت کے باعث بچپن سے ہی سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے لیکن خاطر خواہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ کہتے ہیں کہ وہ شرارتوں کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ چھٹی کے وقت اسکول کے باہر کھڑے ہو جاتے تھے اور دیگر لڑکوں کے ہمراہ لڑائی جھگڑا معمول تھا ۔ اسکول کے اساتذہ اکثر ان سے ناراض رہتے تھے اور گھر پر شکایات کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ اکثر استاد جو سوالات پوچھتے تھے ان کا جواب نہیں دیتے تھے۔ اساتذہ کی جانب سے ایک خاص حکمت عملی کے تحت انہیں کلاس کا مانیٹر بنا دیا جاتا تھا ۔ اسکول میں بالکل دل نہیں لگتا تھا مگر گھر والوں کے دباؤ پر اسکول جانا پڑتا تھا اور بالاخر دوسری جماعت کے بعد صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔
بچپن میں دوستوں کے ساتھ درختوں پر چڑھ جاتے تھے اور ہم عمروں کو ستانے کیلئے مختلف خطرناک جانوروں کی آوازیں بھی لگاتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانیت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ رمضان اور عیدین کے مواقع پر انکی والدہ اور دیگر میمن خواتین کھانے پینے کی چیزوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ تیار کرتیں جنہیں غریبوں میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں ہی سونپی جاتی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ والدہ کی تربیت کے باعث اکثر وہ بانٹوا کے گلی کوچوں میں گھومتے رہتے اور اگر کوئی معذور یا اپاہج نظر آ جاتا تو اس کی مدد کرتے۔
پٹھو گرم پسندیدہ کھیل تھا، اس میں سات چپٹی شکل کے پتھروں کو اوپر نیچے رکھ کر ایک بچہ انہیں دور سے گیند مارتا ہے اور جتنے پتھر گرتے ہیں انہیں دوبارہ رکھنا ہوتا تھا جبکہ حریف ٹیم کا کوئی کھلاڑی اس گیند کا نشانہ اگر پتھر گرانے والی ٹیم کو پتھر رکھنے سے پہلے رکھ دیتا تو وہ ٹیم ہار جاتی ہے اور اگر پتھر رکھنے میں کامیابی ہوتی ہے تو پھر کامیابی گیند مارنے والی ٹیم کے حصے میں آتی ہے ۔ اس کے علاوہ کرکٹ اور گلی ڈنڈا بھی کھیلتے تھے اور دوڑکے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ شروع ہی سے باغی تھے۔ ایک مرتبہ دیگر دوستوں کے ہمراہ گھر سے بھاگ گئے اور بانٹوا سے احمد آباد جا پہنچے لیکن پھر واپس گھر لوٹ آئے اور والدین کے سمجھانے پر آئندہ ایسا کام کبھی نہیں کیا ۔ بچپن میں سوچتے تھے کہ زندگی میں انسانیت کیلئے کچھ بڑا کام کرنا ہے، لیکن کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے یہ معلوم نہ تھا ۔شروع سے ہی انتہائی سادہ زندگی بسر کی، ہمیشہ سچ بولتے تھے اور محنت سے کبھی نہیں گھبرائے ۔
گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے ایک کپڑے کے تاجر حاجی عبداللہ کی دکان پر نوکری بھی کی جہاں انہیں پانچ روپے ماہانہ دیئے جاتے تھے۔دکان کا مالک دیگر لڑکوں سے زیادہ ان پر اعتماد کرتا تھا اس لئے انہیں مزید ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں اور آمدنی میں بھی اضافہ کیا گیا۔وہ زمانہ بہت اچھا تھا چار آنے کی سیر چینی اور بیس پیسے فی سیر دودھ ہوتا تھا، اس زمانے میں دودھ لیٹرز میں نہ ملتا تھا ۔
اسی دوران ہندوستان میں سامراج دم توڑنے لگا اور جنوبی ایشیا میں ایک الگ وطن کی تیاریاں ہونے لگیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح بانٹوا کے مسلمانوں سے خطاب کیلئے آئے جہاں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ سب نے ان کی تقریر کے دوران فلک شگاف نعرے لگائے اور انہیں پارٹی فنڈز کے لئے جمع کیے گئے 35 ہزار روپے پیش کیے۔
اس دوران والد نے کہا کہ ہمیں بہتر مستقبل کیلئے پاکستان چلے جانا چاہیے اور انہوں نے برادری کے بہت سے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا ۔ چھ ستمبر 1947 کو میمن برادری کے چار ہزار افراد اوچھ جانے کے لئے سوار ہوئے۔ اس دوران پانچ روز تک سوکھی روٹی کھا کر گزارہ کرنا پڑا اور کشتیوں میں بیٹھ کر براستہ بحرہ عرب کراچی کے ساحل پر پہنچے ۔اس وقت ان کی عمر بائیس سال تھی ۔
کچھ عرصہ ملیر میں رہنے کے بعد ان کے والد نے جوڑیا بازار کے ساتھ چھاپہ گلی میں ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لے لیا ۔میٹھادر میں ایک 13 سو روپے کا ٹکڑا لیا جو ابھی ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی کے نام پر ہے جبکہ ان کے نام صرف چھاپہ گلی کا ایک مکان ہے جس سے ان کے والدین کا جنازہ اٹھایا گیا تھا۔ بچپن سے ایمبولینس چلاناان کا شوق تھا کیونکہ اس سے بہت اچھے کام ہوتے ہیں ۔
کراچی میں آنے کے بعد جیب میں ایک پائی بھی نہ تھی اور سب سے پہلا مسئلہ یہ تھا کہ پیسہ کہا ں سے لایا جائے۔ لیکن یہ گر ماں باپ نے سکھایا تھا کہ روڈ پر کھڑے ہو کر بھیک مانگ لینا۔ یہ عادت آج تک اپنائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ قائم ہوا اور انشاء اللہ چلتا رہے گا۔ زیادہ تر امور فیصل ایدھی کے سپرد کر دیئے اور وہ احسن طریقے سے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں اس کے علاوہ بیٹی کبریٰ بھی یتیم بچوں اور بے سہارا خواتین کی دیکھ بھال کر رہی ہیں ۔
1977میں کراچی میں فلو کی وبا پھیلی ۔ طبی مراکز کی کمی کے باعث عوام شدید پریشانی کا شکار تھی۔ ایسی صورتحال میں انہوں نے ٹینٹوں میں نو ڈسپنسر یاں کھولیں اور سول اسپتال میں زیر تربیت ڈاکٹرز کو بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر آمادہ کیا ۔ ادھار پر ادویات مارکیٹ سے حاصل کیں۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایدھی کے تمام سینٹرز پر صرف سادی ادویات ہی دی جاتی ہیں۔ خیر اس تمام تر صورتحال میں لوگوں نے کام کا جذبہ دیکھ کر انہیں عطیات دینا شروع کر دیئے جن کی مالیت 37 ہزار تھی جبکہ اس ساری مہم پر خرچہ سات ہزار آیا تھا ۔
دوسرا حصہ:
عوام کا پیار ہی میرے لیے سب کچھ ہے
تیسرا اور آخری حصہ: