انسان چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی حصے یا قوم سے ہو، پیدائشی طور پر مہذب یا سلیقہ شعار نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ انسانی رویے کو کنٹرول کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے مذہب اور قانون کا سہارا لیا جاتا ہے
واشنگٹن —
یہ جگہ معذور افراد کے لئے مخصوص ہے۔
قانون کے مطابق ٹرین میں کھانا، پینا اور اونچی آواز میں میوزک سننا منع ہے۔
مہربانی فرما کر اپنے اردگرد ماحول کو صاف رکھیں۔
اور اس طرح کے کئی سائن بورڈز روزانہ پڑھنے کے بعد مجھے اپنے فیملی ڈاکٹر کی بات یاد آگئی۔ ڈاکٹر صاحب انٹرنیشنیل ڈائبیٹک سوسائٹی کے ممبر ہونے کی وجہ سے اکثر امریکہ کے دورے پر آتے جاتے رہتے تھے۔
امریکہ روانگی سے قبل، جب میں اپنے میڈیکل چیک اپ کے لئے ان کے پاس گئی تو انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک تجزیہ پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ، ’امریکی کوئی غیر معمولی قوم نہیں۔ دوسری حکومتوں کی طرح امریکی حکومت کے لئے شہریوں کے رویے کو کنٹرول کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ لوگوں کے سماجی رویے کی رہنمائی کرنے کے لئے کئی قوانین بنا دیے گئے ہیں ۔۔۔ لہذا، قانون کی پاسداری کے چکر میں مہذب رویہ اختیار کرنا، لوگوں کی مجبوری ہے‘۔
مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے اس تجزیے پر میں کچھ زیادہ اتفاق نہ کر سکی اور دل ہی دل میں سوچنے لگی، ’نہیں، میر ے خیال میں یورپی اور امریکی قدرتی طور پر مہذب ہوتے ہیں‘۔
لیکن، ان سائن بورڈز نے میرے خیالات کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔
انسان، چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی حصے یا قوم سے ہو، پیدائشی طور پر مہذب یا سلیقہ شعار نہیں ہوتا۔
اور یہی وجہ ہے کہ انسانی رویے کو کنٹرول کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے مذہب اور قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔
یہی حال امریکہ میں بھی ہے۔
مختلف قوموں اور عقائد کے لوگوں کے رویوں کو ایک سانچے میں ڈھالنے اور ایک مہذب قوم کا نقشہ پیش کرنے کے لئے قانون کی مدد لی گئی ہے۔
یہیں مجھےخیال آیا کہ ہمارے ملک میں اکثر لوگوں کے غیر مہذب رویے کا ذمہ دارکون ہے؟
کیا پاکستان کی حکومت کو بھی ایسی قانون سازی کرنی چاہئے جس کے تحت ہر شہری اس بات کا پابند ہو کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے معذور افراد کا احترام کریں۔
خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو جیل کی ہوا کھانی پڑے۔ سڑکوں پر کوڑا پھینکنے والے کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کا خوف ہو، کار سوار پیدل چلنے والے شہریوں کا خیال کرتے ہوئے سڑک پر انہیں بھی چلنے کا حق دیں۔
لیکن، اپنے ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر ہماری حکومت کو کبھی عوامی رویے کی رہنمائی کرنے والے قوانین بنانے کا خیال نہ آیا تو کیا ہم کبھی مہذب قوم نہیں بن سکیں گے؟
قانون کے مطابق ٹرین میں کھانا، پینا اور اونچی آواز میں میوزک سننا منع ہے۔
مہربانی فرما کر اپنے اردگرد ماحول کو صاف رکھیں۔
امریکہ روانگی سے قبل، جب میں اپنے میڈیکل چیک اپ کے لئے ان کے پاس گئی تو انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک تجزیہ پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ، ’امریکی کوئی غیر معمولی قوم نہیں۔ دوسری حکومتوں کی طرح امریکی حکومت کے لئے شہریوں کے رویے کو کنٹرول کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ لوگوں کے سماجی رویے کی رہنمائی کرنے کے لئے کئی قوانین بنا دیے گئے ہیں ۔۔۔ لہذا، قانون کی پاسداری کے چکر میں مہذب رویہ اختیار کرنا، لوگوں کی مجبوری ہے‘۔
مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے اس تجزیے پر میں کچھ زیادہ اتفاق نہ کر سکی اور دل ہی دل میں سوچنے لگی، ’نہیں، میر ے خیال میں یورپی اور امریکی قدرتی طور پر مہذب ہوتے ہیں‘۔
انسان، چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی حصے یا قوم سے ہو، پیدائشی طور پر مہذب یا سلیقہ شعار نہیں ہوتا۔
اور یہی وجہ ہے کہ انسانی رویے کو کنٹرول کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے مذہب اور قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔
یہی حال امریکہ میں بھی ہے۔
مختلف قوموں اور عقائد کے لوگوں کے رویوں کو ایک سانچے میں ڈھالنے اور ایک مہذب قوم کا نقشہ پیش کرنے کے لئے قانون کی مدد لی گئی ہے۔
یہیں مجھےخیال آیا کہ ہمارے ملک میں اکثر لوگوں کے غیر مہذب رویے کا ذمہ دارکون ہے؟
کیا پاکستان کی حکومت کو بھی ایسی قانون سازی کرنی چاہئے جس کے تحت ہر شہری اس بات کا پابند ہو کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے معذور افراد کا احترام کریں۔
خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو جیل کی ہوا کھانی پڑے۔ سڑکوں پر کوڑا پھینکنے والے کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کا خوف ہو، کار سوار پیدل چلنے والے شہریوں کا خیال کرتے ہوئے سڑک پر انہیں بھی چلنے کا حق دیں۔
لیکن، اپنے ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر ہماری حکومت کو کبھی عوامی رویے کی رہنمائی کرنے والے قوانین بنانے کا خیال نہ آیا تو کیا ہم کبھی مہذب قوم نہیں بن سکیں گے؟