ایبولا: ہلاکتیں ڈھائی ہزار سے زائد، ہنگامی اقدامات جاری

فائل

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے وائرس کے وبائی شکل اختیار کرنے کو "بین الاقوامی امن اور سکیورٹی" کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے مغربی افریقی ممالک میں ایبولا وائرس کی روک تھام کےلیے خصوصی مشن کے قیام کا اعلان کیا ہے جب کہ وائرس سے ہونے والی ہلاکتیں 2600 سے زائد ہوگئی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ ایبولا سے مقابلے کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے عالمی ادارے کے خصوصی نمائندے کا تقرر کریں گے۔

بان کی مون کے بقول نمائندہ خصوصی ایبولا کے سدِ باب، مریضوں کے علاج، متاثرہ ملکوں کو ضروری امداد کی فراہمی اور مرض کو دیگر ملکوں تک پھیلنے سے روکنے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں رابطہ کار کے فرائض انجام دیں گے۔

عالمی ادارے کی سلامتی کونسل نے بھی وائرس کے وبائی شکل اختیار کرنے کو "بین الاقوامی امن اور سکیورٹی" کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

جمعرات کو ہونے والے 15 رکنی کونسل کے ہنگامی اجلاس نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے تمام ملکوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اس وبائی مرض کے سدِ باب کے لیے متاثرہ ملکوں کو ہر ممکن مدد اور تعاون فراہم کریں۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ایبولا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 2630 ہوگئی ہے۔ عالمی ادارے کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وائرس کے مزید 700 کیسز سامنے آئے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود مرض مسلسل پھیل رہا ہے۔

ایبولا سے بچاؤ کی کوششوں میں سرگرم کردار ادا کرنے والے مغربی ملکوں کی فہرست میں فرانس بھی شامل ہوگیا ہے جس نے وائرس سے متاثرہ ملک گنی میں فیلڈ اسپتال قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فرانس کے صدر فرانسس اولاں نے جمعرات کو پیرس میں موبائل فوجی اسپتال گنی بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ فرانس عام لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے عملی کردار ادا کرے گا۔

گزشتہ روز برطانیہ نے بھی اپنی سابق کالونی اور ایبولا سے متاثر ہونے والے مغربی افریقی ملک سیرا لیون کے اسپتالوں کو مزید 700بستر دینے کا اعلان کیا تھا۔

امریکی صدر براک اوباما بھی ایبولا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تیسرے ملک لائبیریا کی درخواست پر تین ہزار امریکی فوجی وہاں بھیجنے کا اعلان کرچکے ہیں جو مقامی طبی عملے کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ امداد کی فراہمی اور نئے اسپتالوں کے قیام میں مدد دیں گے۔

دریں اثنا گنی میں دیہی آبادیوں کو ایبولا کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے والی ایک ٹیم کے سات افراد اور ان کے ساتھ سفر کرنےو الے دو صحافی لاپتا ہوگئے ہیں۔

گنی حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق مقامی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان افراد پر دیہاتیوں کے ایک گروہ نے حملہ کیا تھا جو وائرس کے باعث اٹھائے جانے والے سرکاری اقدامات اور دیہاتیوں کی نقل و حرکت پر پابندیوں سے خائف تھا۔

مقامی میڈیا نے حملے میں ٹیم کے چھ افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے لیکن سرکاری ترجمان نے اس خبر کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا ہے۔

دوسری جانب سیرا لیون میں حکومت کی جانب سے تین روزہ ملک گیر کرفیو کا آغاز ہوگیا ہے جس کے دوران ملک کی 60 لاکھ آبادی اپنے گھروں میں محصور رہے گی۔

کرفیو کی مدت کے دوران ہزاروں طبی کارکن گھر گھر جا کر عوام کو ایبولا سے بچاؤ کی تعلیم دیں گے جب کہ اس دوران وائرس سے متاثرہ افراد کی نشان دہی کرکے انہیں اسپتال منتقل کیا جائے گا۔

سیرالیون کی حکومت کا کہنا ہے کہ جمعے، ہفتے اور اتوار کو جاری رہنے والی اس ملک گیر سرگرمی کے دوران ایبولا کے مزید سیکڑوں مریض سامنے آ نے کی توقع ہے۔