انڈونیشیا میں شرعی قوانین کی آڑ میں شہریوں کوہراساں کیا جارہاہے: ہیومن رائٹس واچ

انڈونیشیا میں شرعی قوانین کی آڑ میں شہریوں کوہراساں کیا جارہاہے: ہیومن رائٹس واچ

ہیومن رائٹس واچ نے آچے کی حکومت سے صوبے میں نافذ دو شرعی قوانین کی تنسیخ کا مطالبہ کیا ہے ۔

انسانی حقوق کےلیے سرگرم ایک عالمی تنظیم نے انڈونیشیا کے صوبے آچے کی حکومت پر اسلامی قوانین کے ذریعے شہریوں کو ناجائز طریقے سے ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

بدھ کے روز جاری ہونے والی اپنی ایک طویل رپورٹ میں "ہیومن رائٹس واچ" نے آچے کی حکومت سے صوبے میں نافذ دو شرعی قوانین کی تنسیخ کا مطالبہ کیا ۔ ان دونوں قوانین میں سے ایک کا تعلق غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے درمیان تعلقات کی روک تھام ، جبکہ دوسرا قانون مسلم شہریوں پر عوامی مقامات پہ مناسب لباس پہننے کی پابندی سے متعلق ہے۔

تنظیم کا موقف ہے کہ صوبائی انتظامیہ ان قوانین کے ذریعے شہریوں کو ناجائز اور نامناسب طور پر ہراساں کررہی ہے۔

آچے مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا کا واحد صوبہ ہے جسے ملکی آئین کے تحت اپنی حدود میں شرعی قوانین کے نفاذ کا خصوصی اختیار حاصل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آچے کے پولیس حکام مرد و خواتین کے مخلوط محافل پر قانون کا غلط اطلاق کرتے ہوئے اسے مرد اور عورت کےدرمیان کسی عوامی مقام پر ہونے والی بات چیت اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے روکنے کےلیے استعمال کررہے ہیں۔

تنظیم کے مطابق اس قانون کے غلط اطلاق اور اس کے نتیجے میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ان گنت شہادتیں موصول ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کی جانے والی ایک خاتون کو شرعی پولیس کی تحویل میں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عوامی مقامات پر لباس کے متعلق قانون میں مردوں کے مقابلے میں خواتین پر زیادہ سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ تنظیم انڈونیشی صدر سوسیلو بمبانگ یودھویونو کے سامنے صوبے کے ان تمام مقامی قوانین کا جائزہ لینے کا مطالبہ پیش کرے گی جن کے بارے میں اتنظامیہ کا موقف ہے کہ ان سے اخلاقیات کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا صدر دفتر نیویارک میں ہے جب کہ 10 ممالک میں اس کی شاخیں کام کررہی ہیں۔