اداکاروں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم ایکٹرز کلیکٹو ٹرسٹ (ایکٹ) اور پروڈیوسرز کی نمائندہ جماعت یونائیٹڈ پروڈیوسرز ایسوسی ایشن (یو پی اے) کے درمیان گزشتہ ہفتے گورنر ہاؤس کراچی میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔
ایکٹ اور یو پی اے کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے تحت دونوں تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل کی موجودگی میں ایکٹ کی جانب سے اس معاہدے پر چیئر پرسن عتیقہ اوڈھو نے دستخط کیے جب کہ یو پی اے کی نمائندگی پروڈیوسر حسن ضیا نے کی۔
اس موقع پر گورنر سندھ کے ساتھ ساتھ سینئر اداکار طلعت حسین اور ثمینہ احمد نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس معاہدے کو پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔
ایکٹ جیسی تنظیم بنانے کی ضرورت پیش کیوں آئی؟
اداکاروں کو تحفظ اور ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے پانچ برس قبل ایکٹرز کلیکٹو ٹرسٹ بنایا گیا تھا جو آج بھی پاکستان میں اداکاروں کی واحد رجسٹرڈ تنظیم ہے۔
معروف اداکار اور ایکٹ کے جنرل سیکریٹری اداکار علی طاہر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کے قیام کو پانچ برس تو ہو گئے ہیں لیکن اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد تھی جس کا مقصد اداکاروں کو ان کے حقوق اور معاشرے میں ان کا درست مقام دلوانے کی ضرورت تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انٹرٹینمنٹ کے لیے پلیٹ فارم تو تھے لیکن اسے ایک انڈسٹری نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اداکار علی طاہر کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی انڈسٹری کے بزنس سے بینکنگ کو نکال دیں تو وہ کیسے چلے گی؟ شوبز سے تعلق رکھنے والا فرد آج بھی پاکستان میں قسطوں پر گاڑی نہیں خرید سکتا۔ اسے بینک سے قرضہ لینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ انڈسٹری کو اس کے جائز مقام پر لائیں تا کہ اس میں کام کرنے والے ان فکروں سے آزاد ہو کر اپنے کام پر توجہ دے سکے۔
علی طاہر نے بتایا کہ یہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ تھا لیکن وہاں کے اداکاروں اور پروڈیوسرز نے اس کے حل کے لیے یونینز اور ایسوسی ایشنز بنائیں، جنہوں نے ہر چیز کا طریقۂ کار واضح کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف انہوں نے اداکاروں کے حقوق کے لیے جنگ لڑی بلکہ کنٹریکٹ (معاہدے) کو اسٹینڈرڈائز کرنے اور ٹیلنٹ کو پروموٹ کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔
بقول علی طاہر 50 برس سے سینئر اداکار طلعت حسین، نعیم طاہر، قوی خان اور بعد میں سہیل احمد، ثمینہ احمد، فیصل رحمٰن، نعمان اعجاز، صبا حمید اس تنظیم کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے تھے لیکن فاصلوں سمیت کئی وجوہات کی بنا پر اکٹھے نہیں ہوپا رہے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب سب اداکار اس تنظیم کے تلے اکٹھے ہو چکے ہیں اور ایکٹ کی کوشش ہو گی کہ کسی فن کار کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔
اداکاروں اور پروڈیوسرز کے درمیان کیا مسائل ہوتے ہیں؟
یو پی اے کے چیئرمین اور پروڈیوسر حسن ضیا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پروڈیوسرز اور اداکاروں کے درمیان معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوں اس کے لیے دونوں تنظیموں نے ایک ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے بعد اداکار اور پروڈیوسرز تمام چھوٹے اور بڑے مسائل بات چیت کے ذریعے طے کریں گے اور مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے افراد کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
پروڈیوسر حسن ضیا کے بقول ویسے تو اداکاروں اور پروڈیوسرز کے درمیان اتنے بڑے مسائل نہیں ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے بہت سے مسئلوں کی وجہ سے کبھی کبھی معاملات ہاتھ سے نکل کر میڈیا تک پہنچ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کوئی اداکار پروڈیوسر کو تاریخوں کے معاملے میں لٹکاتا ہے تو کسی کا ساتھی اداکاروں کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہوتا جب کہ بعض پروڈیوسرز کی جانب سے ادائیگی کے معاملات بھی بدمزگی پیدا کرتے ہیں۔
حسن ضیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ یو پی اے، ایکٹ کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گی کہ دونوں میں سے کسی پارٹی کی حق تلفی نہ ہو اور کسی فن کار کے زیادہ کام کے حصول کا معاملہ ہو یا پروڈیوسرز کی پسند ناپسند کا، اب دونوں تنظیمیں ایک ہو کر کام کریں گی تا کہ اس سے پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری آگے بڑھ سکے۔
اسی معاملے میں اداکار علی طاہر کا کہنا تھا کہ اداکاروں کو پروڈیوسرز سے زیادہ تر مالی معاملات کی وجہ سے مسائل ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اداکاروں کو کہیں دیر سے ادائیگی ہوتی ہے اور کچھ جگہ ہوتی ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جب نئے اداکاروں کا حق مارا جاتا ہے تو وہ فیلڈ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
علی طاہر کا کہنا تھا کہ ایکٹ کی کوشش ہو گی کہ کوئی بھی نیا یا پرانا اداکار فیلڈ چھوڑ کر نہ جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم یو پی اے کے ساتھ مل کر ایک کنٹریکٹ کا ایسا مسودہ بنا رہے ہیں جو ٹی وی، فلم، ریڈیو، ڈیجیٹل اور تھیئٹر کے اداکاروں اور پروڈیوسرز کے لیے قابل قبول ہو۔
اداکاروں اور پروڈیوسرز کے مابین معاہدہ کیوں ضروری؟
پروڈیوسر حسن ضیا کے بقول معاہدے پر دستخط ہونا اس لیے بھی ضروری تھا تا کہ سکڑتی ہوئی انڈسٹری کو بچایا جا سکے۔ اگر انڈسٹری ہی نہیں رہے گی تو اداکار و پروڈیوسرز کیا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کے فائدے کے لیے اداکاروں اور پروڈیوسرز کا ایک ہونا بہت ضروری تھا۔ آگے جاکر ہمیں ویب، فلم اور ٹی وی پر ساتھ کام کرنا ہے اور اگر اختلافات ختم نہ ہوئے تو آگے بہتر کام کیسے کریں گے۔
حسن ضیا نے یہ بھی بتایا کہ معاہدے کو دستاویز کی شکل دینا اس لیے بھی ضروری تھا تا کہ اداکاروں کو یہ بات معلوم ہو سکے کہ ان کی بھی ایک نمائندہ تنظیم ہے جو صرف ان کے اچھے مستقبل کے لیے سوچ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یو پی اے گزشتہ 15 برسوں سے پروڈیوسرز کے مسائل حل کر رہی ہے اور ان کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے۔
علاوہ ازیں پروڈیوسر حسن ضیا نے بتایا کہ یہ سب اداکارہ عتیقہ اوڈھو کا ہی آئیڈیا تھا، بہت کم لوگ اس قسم کے کاموں کے لیے وقت نکالتے ہیں لیکن ان کی محنت کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا ہے۔
مسائل کے حل کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟
اداکار علی طاہر کا کہنا تھا کہ ایکٹ اور یو پی اے معاملات سلجھانے کے لیے وہی طریقۂ کار اختیار کریں گی جو مہذب ممالک میں اختیار کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم جو کنٹریکٹ تیار کر رہے ہیں اس میں دونوں طرف کے افراد کی رائے شامل ہو گی اور اس کے باوجود اگر کسی بھی طرف سے کوئی مسئلہ ہوا تو ثالثی کمیٹی کا فیصلہ حتمی ہو گا۔
ان کے بقول ہماری کوشش ہو گی کہ مسائل میڈیا میں جانے سے پہلے ہی حل کر لیں تاکہ انڈسٹری کا وقار اور نیک نامی بھی قائم رہے۔
اداکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی تنظیم علاج معالجے کے لیے مالی مشکلات سے دو چار ہونے والے اداکاروں کے لیے بھی ایک جامع لائحہ عمل تیار کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم ایکٹ کے ان ممبران کو ہیلتھ انشورنس کی سہولت دے رہے ہیں جنہوں نے اس میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ نیو جوبلی انشورنس کے اشتراک سے ایکٹ کے ممبران پانچ لاکھ روپے تک اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔
علی طاہر کا مزید کہنا تھا کہ ایکٹ کا ارادہ ہے کہ جلد ہی اس کا دائرہ بڑھا کر تمام اداکاروں تک پہنچا جائے۔ جوں جوں ایکٹ کے ممبران میں اضافہ ہو گا یہ کام آسان ہو جائے گا۔