عراق اور اس کے مغربی اتحادیوں نے بظاہر داعش کے عناصر کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اور وہ اس دہشت گرد گروپ کے اہم رہنماؤں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ امریکہ کی زیر قیادت داعش مخالف اتحاد نے بغداد کے مغرب میں ایک اہم فضائی حملے میں بدھ کے روز ابو حسن الغریبوی اور تین دیگر جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
عراقی وزیر اعظم مصطفی القدیمی نے اپنے متعدد ٹوئٹس میں فضائی حملے کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ الغریبوی کو جنوبی عراق میں داعش کا رہنما تھا۔
القدیمی نے یہ بھی کہا کہ اس حملے میں داعش کا ایک سہولت کار، غنیم صباح جواد بھی ہلاک ہوا جو خودکش بمباروں کی نقل و حرکت کا ذمہ دار تھا.
منگل کے روز کئے گئے اس فضائی حملے سے قبل گزشتہ ہفتے عراقی عسکری قیادت میں کی گئی ایک کارروائی میں 39 سالہ ابو یسار العساوی ہلاک ہو گیا جو داعش کا نائب کمانڈر اور عراق میں دہشت گرد گروہ کا سب سے سینئر رہنما تھا۔
عراق کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی سروس نے العساوی کو 27 جنوری کو کرکوک شہر کے مغرب میں ہونے والی لڑائی کے دوران ہلاک کر دیا۔ یہ علاقہ داعش کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
عراقی حکومت پر داعش کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا کیونکہ گزشتہ ماہ بغداد میں ایک اوپن ایئر مارکیٹ میں ہونے والے دوہرے خودکش بم دھماکے میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اتحادی عہدے داروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ داعش کے عراقی رہنما العساوی کی ہلاکت اس گروہ کے لئے ایک اور بڑا دھچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ملک بھر میں داعش کے سیلز اور نیٹ ورکس کو ترقی دینے کا ذمہ دار تھا۔
امریکہ کی زیرقیادت اتحاد کے ترجمان کرنل وین ماروٹو نے ایک ای میل میں دہشت گرد گروپ پر مستقل دباؤ جاری رکھنے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ داعش علاقائی طور پر شکست خوردہ لیکن فعال ہے اور اب بھی ایک چیلنج ہے۔
امریکی حکام نے بھی آئی ایس کی قوت کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ بغداد مارکیٹ پر حملہ 2018 کے بعد سے اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور اس گروپ کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔
عہدے دار نے مزید خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدشات شمالی اور وسطی عراق کے لئے سب سے زیادہ شدید ہیں، جہاں داعش خود ساختہ دھماکہ خیز مواد یا آئی ای ڈی کا استعمال کرتے ہوئے مستقل ہلاکتوں اور حملوں کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے عراق میں فوجیوں کی تعداد کم کر کے 2500 کر دی تھی اور اس وقت کے قائم مقام وزیر دفاع کرسٹوفر ملر نے کہا تھا کہ یہ اقدام داعش کے خلاف جنگ میں حقیقی پیش رفت کا ثبو ت ہے۔
پینٹاگان نئے وزیر دفاع لائڈ آسٹن کی قیادت میں عراق اور دیگر مقامات پر اپنی فوجی قوت کا جائزہ لے رہا ہے اور ایک ترجمان نے بتایا کہ اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں کی تعدادکے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی عہدیداروں کے تازہ ترین اندازے کے مطابق یہ تعداد 10،000 ہے۔ امریکی حکام نے 2019 کے آخر میں کہا تھا کہ عراق اور شام میں 14،000 سے 16،000 تک داعش کے جنگجو موجود ہیں۔