بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کی سی سی ٹی وی کیمروں سے ویڈیوز بنا کر ہراساں کرنے کے کیس میں بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ میں گزشتہ ماہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے یونیورسٹی کے وکیل اور رجسٹرار کو حکم دیا تھا کہ یونیورسٹی سینڈیکٹ کا اجلاس طلب کرکے ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کی جائے۔
بلوچستان یونیورسٹی سینڈیکیٹ کا اجلاس وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں اسکینڈل میں ملوث دو ملزمان سابق چیف سیکورٹی افسر محمد نعیم اور سیکیورٹی گارڈ سیف اللہ کو ملازمت سے برطرف کرنے کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ سابق رجسٹرار طارق جوگیزئی اور سابق ٹرانسپورٹ افسر شریف شاہوانی کی تنخواہ میں دو، دو سال کے لیے اضافہ (انکریمنٹ) نہیں کیا جائے گا۔
سینڈیکیٹ کے اجلاس کے اہم فیصلے میں سابق وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال کے خلاف جوڈیشل انکوائری کرنے کے ساتھ ساتھ سزا کے طور پر ان کے تمام ایوارڈز اور ٹائٹلز واپس لینے کے لیے گورنر بلوچستان سے سفارش کرنا بھی شامل تھا۔
جامعہ بلوچستان کے سابق وائس چانسلر جاوید اقبال نے طلبہ کی ویڈیو بنا کر ہراساں کرنے کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد رضا کارانہ طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
واضح رہے کہ یونیورسٹی سینڈیکیٹ ایک خود مختار اتھارٹی ہے تاہم قانون کے مطابق وہ کسی وائس چانسلر کے خلاف براہِ راست کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اس لیے صوبے کے گورنر کو کارروائی کے لے سفارشات ارسال کی گئی ہیں۔
گزشتہ برس ستمبر میں بلوچستان یونیورسٹی میں سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ویڈیوز بنا کر طالبات کو ہراساں کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس پر بلوچستان ہائی کورٹ نے نوٹس لے کر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹس کے مطابق طلبہ کو ہراساں کرنے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی طالبات نے خوف کی وجہ سے نہ صرف یونیورسٹی کا ہاسٹل خالی کیا بلکہ اپنا تعلیمی سفر بھی ختم کر دیا تھا۔
اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے سینڈیکیٹ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسکینڈل کے تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم بعض ارکان ایف آئی اے کی تحقیق کرنے کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس اسکینڈل کی تحقیقات کی صوبے کی پولیس یا کسی اور ادارے سے کرائی جاتی تو شاید بہتر انداز میں تحقیقات سے اصل کرداروں تک پہنچا جا سکتا تھا۔
سینڈیکٹ کے اجلاس میں موجود ایک فرد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یونیورسٹی میں نگرانی کے لیے 80 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں جن میں سے دو کیمروں سے طلبہ کی ویڈیوز بنائی جاتی رہیں۔
یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے حالیہ فیصلے میں صرف چند افراد کو موردِ الزام ٹھہرانے پر کچھ متحرک طالبات مطمئن دکھائی نہیں دیتیں۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ سعدیہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہماری معلومات کے مطابق اس اسکینڈل میں صرف چند افراد ملوث نہیں تھے بلکہ نچلے طبقے سے لے کر اعلیٰ عہدوں ہر فائز کئی افراد ملوث تھے۔
سعدیہ بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر ایف آئی اے درست تحقیقات کی ہوتی تو ان تمام افراد کو سزا ملتی۔
بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کی ویڈیوز بنا کر ہراساں کرنے کے کیس کی آئندہ سماعت 30 جولائی کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ہو گی جس میں یونیورسٹی سندیکیٹ کے حالیہ فیصلوں اور سفارشات کی روشنی رپورٹ پیش کی جائے گی۔